پاکستانی ریاست میڈیا کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتی جارہی ہے۔ ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو فارغ کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی طرح صحافیوں، لکھاریوں اور میڈیا کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کبھی میڈیا ریاستی پابندیوں سے آزاد ہوا ہو۔ چونکہ اب سوشل میڈیا ایک طاقتور متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے اس لیے خبریں اور معلومات مین سٹریم میڈیا پر نہ سہی سوشل میڈیا پر آجاتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں بہت سے صحافی ٹی وی چینلز سے فارغ ہوئے ہیں جن میں طلعت حسین نمایاں ہیں کیونکہ فراغت کے بعدانھوں نے سوشل میڈیا کو اپنے خیالات کےاظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔
لیکن طلعت حسین جہادی تنظیموں اوربلوچستان کے متعلق خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔بلوچستان جو کہ ابھی تک پاکستان کا ہی صوبہ ہے کے لاپتہ افراد کا مسئلہ اتنا خطرناک ہے کہ غیر ملکی نشریاتی ادارے جو مختلف ایشوز پر سوشل میڈیا پر لوگوں کا لائیو انٹرویو کرتے ہیں وہ بھی بلوچستان میں جاری المیے پر خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں ۔ کسی بھی چینل نے کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین سے گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
سوائے محمد حینف کے پاکستان کے روشن خیال صحافی و لکھاری خاموش ہیں۔ لاپتہ افراد کے ایشو پر پاکستان کے روشن خیال اور بنیاد پرست صحافی و لکھاری اور ان کے میگزین ایک ہی پیچ پر ہیں۔
کوئٹہ میں ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں مگر افسوسناک عمل یہ ہے کہ ان کے احتجاج کو سب ریاستی ادارے اور دانشور نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ سیاستدانوں اور چیف جسٹس،پر تبرے بھیج کر اپنا سینہ چوڑا کر لیتے ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور شہریوں کی گمشدگی کا سلسلہ ایک دہائی سے جاری ہے۔ جس کے حوالے سے ماما قدیر بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز گزشتہ کئی برسوں سے آواز اٹھاتے آ رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کی بحالی کے لیے وہ تاریخ کا طویل ترین لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں۔ حالیہ احتجاج میں اس وقت شدت دیکھنے کو آئی جب آواران سے طلبا تنظیم کے لاپتہ کارکن شبیر بلوچ کی ہمیشرہ اور اہلیہ اس کیمپ میں پہنچیں۔
ان کے احتجاج کے بعد دیگر لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ خصوصاًخواتین نے اس کیمپ کو جوائن کیا۔ جس کے بعد اس احتجاج میں دن بدن شدت دکھائی دے رہی ہے اور سیکیورٹی ادارے مسلسل طالب علموں کو اغوا کر رہےہیں۔
ان لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کے لیےہزاروں کی تعداد میں بلوچ خواتین ، بچے اور مرد بلوچستان ہائیکورٹ کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں مگر بہت سے معاملات پر آزاد و بے لگام قومی میڈیا اور روشن خیال صحافیوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بلوچ نوجوان نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ احتجاج کرنے والوں میں سے کسی نے جان لاک، جان سٹیورٹ مل یا رچرڈ پرائس کا نام نہیں سنا۔ کسی کو قدیم یونان میں جنم لینے والی لبرل روایات کا علم نہیں ہے۔ کوئی یہ نہیں جانتا کہ آج جس پارلیمانی نظام کے باعث عام آدمی کو آواز ملی ہے وہ اسی لبرلزم کی دین ہے۔
لیکن جنہوں نے جان لاک ،جان اسٹیورٹ مل یا رچرڈ پرائس کا نام سنا بھی انہیں پڑھا بھی انہیں قدیم یونان میں جنم لینے والی روایات کا علم بھی ہے اور وہ دانشور یہ بھی جانتے ہوں کہ پارلیمانی نظام کے باعث عام آدمی کو جو آواز ملی ہے وہ بھی اسی لبرل ازم کی دین ہے یہ سب کچھ جاننے اور سمجھنےکے باوجود انکی روشن خیالی پہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں۔
معروف بلاگر سلمان حیدر جو خود جبری گمشدگی کا عذاب سہہ چکےہیں وہ لکھتے ہیں کہ
ابهی میرے دوستوں کے دوست لاپتہ ہو رہے ہیں
پهر میرے دوستوں کی باری ہے
اور اس کے بعد میں وہ فائل بنوں گا جسے میرا باپ عدالت لے کر جائے گا
یا وہ تصویر جسے میرا بیٹا صحافی کے کہنے پر چومے گا
یا وہ چپ جو میری بیوی پہنے گی
یا وہ بڑبڑاہٹ جو میری ماں تصویر پر پھونکنے سے پہلے گنگنائے گی
یا وہ عدد جس سے میں کسی قید خانے میں پکارا جاؤں گا
یا وہ گناہ جو کبهی سرزد نہیں ہوا
یا وہ اعتراف جس پر میں نے اغوا ہونے سے پہلے دستخط کر دیے تهے
یا وہ فیصلہ جو اس اعتراف سے پہلے لکها جا چکا تها
یا وہ سزا جو مجھ پر اور میرے لوگوں پر برابر تقسیم کر دی گئی
یا وہ قانون جس کی بساند سے تہذیب یافتہ نتهنے گهن کهاتے ہیں
یا وہ کمیشن جو اس قانون کا پرفیوم چهڑک کر میز پر بیٹھتا ہے
یا وہ نظم جو میرے دوست کا دوست کل لکهے گا
ہاں میں ایک نظم ہوں میرے سامنے والے صفحے پر ایک تصویر قید ہے
جس کے اده کھلے ہونٹوں کی ایک باچه پر بوسہ کهلا ہوا ہے اور دوسری گنگناہٹ سے لتهڑی ہوئی ہے
اس کے برابر فریم میں ایک فائل ہے اور ساتھ والی دراز میں؟؟؟
شاید گناہ اعتراف اور سزا رکهے گئے ہوں
میں وہ دراز نہیں کھول سکتا اس کے لیے مجهے اپنے صفحے سے نکلنا پڑے گا
نظموں کا صفحوں سے باہر نکلنا جرم ہے کتابوں کو الماریوں سے رہا کروانے کی طرح سنگین….۔
♥