۔
بیرسٹرحمید باشانی
اس دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔ بس انسان کا عزم پختہ ہونا چاہیے۔ انسان کوپتہ ہونا چاہیے کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ اس کی منزل کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس قسم کے مکالمے اکثر بولتے ہیں۔ ان کے بعض اقوال سن کر انسان کو یقین ہونے لگتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام نا ممکن نہیں۔ ان کےخیال میں اگر ارادے مضبوط ہوں تو غربت،بے روزگاری اور پسماندگی سے لیکر مئسلہ کشمیر تک جیسے پیچیدہ ترین مسائل کا حل بھی نکالاجاسکتا ہے۔
وزیراعظم یہ باتیں تواتر سے دہراتے رہتے ہیں۔یہ اقوال زریں بہت پرانے ہیں۔ قدیم چینی دانشور کنفیوسش سے لیکر شکسپئیر تک کئی بڑی شخصیات اس سے ملتے جلتے خیالات کااظہار کرچکی ہیں۔ یہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انسان اگر درست راستے پر چلے اوراسے اپنی منزل کا پتہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے منزل پر پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔مگر رستے اور منزل سے پہلے انسان کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کون ہے؟ اور چاہتا کیاہے ؟
کچھ دیر پہلے میں اس باب میں پروفیسر حریری کی تحریر پڑھ رہا تھا۔ حریری لکھتا ہے کہمیں کون ہوں ؟ مجھے زندگی میں کیا کرناچاہیے ؟ زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ ہر دور کاانسان اپنے اپنے دور میں یہ سوال پوچھتارہا ہے۔ چنانچہ یہ ایک پرانا سوال ہے،لیکن چونکہ جو کچھ انسان جانتا ہے، یانہیں جانتا ، وہ مسلسل بدلتا رہتا ہے ، اسلیے ہر نسل کو ایک نئے جواب کی ضرورت ہوتی ہے، آج جو کچھ بھی ہم سائنس، مذہب کے بارےمیں جانتے ہیں اسے سامنے رکھتے ہوئے اسسوال کا بہترین جواب کیا ہو سکتا ہے ؟
جب لوگ زندگی کے مقصد کے بارے میں پوچھتےہیں، تو جواب میں وہ ایک کہانی کی توقع رکھتے ہیں۔ انسان کہانی سنانے والا جانورہے۔ وہ اعداد وشمار اور گراف کے بجائےکہانی پسند کرتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ کائنات بذات خود ایک کہانی ہے، جو ہیروز اور ولن سے بھری ہوئی ہے۔ جس میں کلائی مکس اورہیپی انڈنگز ہیں۔ جب ہم زندگی کا مقصدڈھوندتے ہیں تو ہمیں ایک کہانی کی ضرورتہوتی ہے ، جو ہمیں بتائے کہ حقیقت کیا ہے۔اور دنیا کہ اس کاسمک ڈرامے میں ہماراکردارکیا ہے۔ یہ کردار ہمیں اپنے سے کسی بہتبڑی چیز کا حصہ بناتا ہے ، او ر ہمارے تمامتجربات کو معنی دیتا ہے۔
اس دنیا میں لاکھوں اربوں لوگوں کو ہزاروں سالوں سے ایک مقبول عام کہانی سنائی جارہی ہے۔ کہانی یہ ہے کہ ہم سب ایک ابدی سائیکل کا حصہ ہیں۔ یہ سائیکل سب انسانوں کو گھیرےہوئے ہے اوران کو آپس میں جوڑتا ہے۔ زندگی کا مقصد سمجھنے کا مطلب ہر انسان کے لیےاپناخاص فریضہ سمجھنا ہے، اور اچھی زندگی گزارنے کا مطلب اس فریضے کی کامیاب ادئیگی ہے۔
ہندورزمیہ بھگواد گیتا میں ایک کہانی ہے کہکس طرح عین حالت جنگ میں جنگجو شہزادہ ارجنا شک اور غیر یقننی کا شکار ہو جاتاہے۔ وہ دشمن فوج میں اپنے دوستوں اور رشتےداروں کو دیکھ کر اس سوچ میں پڑ جاتا ہےکہ کیا اسے ان کے خلاف لڑناچاہیے؟ انہیں قتل کر دینا چاہیے؟ وہ سوچنا شروع ہوجاتا ہے کہ اچھائی اور برائی ہے کیا ؟اور کون طے کرتا ہے کہ کیا اچھائی ہے، اورکیا برائی ہے۔ اور انسانی زندگی کا مقصدکیا ہے۔
تب بھگوان کرشنا اسے بتاتا ہے کہ ہر انسانکا اپنا ایک دھرمہ ہوتا ہے، دھرمہ کیا ہے؟ وہ راستہ جو اسے اختیار کرنا ہوتا ہے،وہ فریضہ جو اس پرلازم ہوتا ہے۔ آگر اپ کواپنے دھرمہ کا علم ہے تو راستہ خواہ ا کتناہی دشوار گزار کیوں نہ ہو، اس پر چلتے ہوئےآپ کو سکون ملتا ہے، اور آپ کو وسوسوں اورشک سے آزادی ملتی ہے۔ اور اگر آپ اپنا دھرم پر چلنے سے انکار کر دیں، کسی اور کے راستےپر چلنا شروع کر دیں، یا راستے سے بھٹکناشروع ہو جائیں تو اس سے دنیا کاکاسمک توازن خراب ہوتا ہے، اور آپ کبھی بھی سکون ،خوشی ا ور مسرت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا راستہ کیا ہے۔ اگر آپ اپنے راستے پر ہی چل رہےہیں۔ ایک دھوبی عورت اس شہزادی سے بہترہے، جو شہزادگی کے راستے سے بھٹک جاتی ہے۔کرشنا کے سمجھانے سے ارجن زندگی کے مقصدکو سمجھ کر ایک سپاہی اور سپہ سالارکے طورپر اپنے دھرم پر چلتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے جنگ کے لیے تیار ہو جاتاہے۔ ان کو قتل کرتا ہے، اور اپنی فوج کوفتح سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس طرح وہ تاریخمیں ہندواں کا پسندیدہ ترین ہیرو بن کرابھرتا ہے۔
اس قدیم کہانی کو سال1994میں ڈیزنی فلم میں ایک نئے اورجدید انداز میں دکھایا گیا، جس میں سمبا نامی شیر کو ارجناکی جگہ پیش کیا گیا۔ جب سمبا زندگی کا مقصدجاننا چاہتا ہے تو بوڑھا شیر بادشاہ موفاسااسے زندگی کے اس سائیکل کےبارے میں بتاتا ہے۔ موفاسا اسے بتاتا ہےکہ ہرن گھاس کھاتے ہیں۔ شیر ہرن کو کھاتےہیں۔ اور جب شیر مرتے ہیں تو ان کا جسم گل سڑ کر گھاس کی خوراک بن جاتا ہے۔ اسی طریقےسے زندگی نسل در نسل چلتی ہے۔ ہر جانور اس ڈرامے میں اپناکردار ادا کرتا ہے۔ دنیامیں ہر چیز ایک دوسرے سے منسلک ہے، اور ہرکوئی ایک دوسرے پر کسی نہ کسی طریقے سےانحصار کرتا ہے۔
یہاں تک کہ اگر گھاس کا ایک تنکابھی اپناکام کرنے میں ناکام ہو جائے تو پوری زندگی کےسائکل میں بگاڑ پڑسکتا ہے۔ بادشاہ اسےبتاتا ہے کہ سمبا کا دھرمہ موفاسا کے بعدجنگل کا بادشاہ بننا اور دوسرے جانوروں پر حکمرانی کرناہے۔ مگر بدقسمتی سے موفاسااپنے شیطان صفت بھائی کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے ۔ سمبااپنے آپ کو اس کا ذ مہ دارقرا دیتا ہے اور تاسف سے سب کچھ چھوڑ چھاڑکرنکل جاتا ہے ۔ وہ کئی سال تک جنگل میں بھٹکتا رہتا ہے۔
مگرسمبا اپنے دھرم سے فرار نہیں ہو سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوال اسے پریشان کرتا ہے کہ وہ کون ہے، اور اس کی زندگی کامقصدکیا ہے۔ پھر اسے موفاساکی روح زندگی کا سائیکل یاد دلاتی ہے۔اس طرح سمبا کے اندر اپنی شاہی شناخت اورحیثیت کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ دریں اثنااسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے چچا کی بادشاہت میں سلطنت بد امنی اور بھوک کا شکار ہے۔وہ واپس جاکر بادشاہ ہو شکست دیکر جنگل کی بادشاہت سنبھال لیتاہے۔ وہ امن اور خوشحالی واپس لاتا ہے۔ فلم کا اختتام اس سین پر ہوتا ہے جب سمبا اپنےنومولد بیٹے کو جانوروں کے مجمعےسے متعارف کرواتے ہوئے انہیں یقین دلاتاہے کہ زندگی کا سائکل یوں ہی جاری رہے گا۔سمبا اور ارجناجانتے ہیں کہ صدیوں سے ہرن گھاس کھاتے آئے ہیں۔ سپاہی جنگین لڑتےرہے ہیں، اور ایسا ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ یہچیزوں کا فطری راستہ ہے۔ اور اگر ارجنالڑنا چھوڑ دیتا یا سمبا بادشا بننے سےانکارکر دیتا تو یہ فطرت کے قوانین کی خلاف بغاوت ہو تی۔
زندگی کی کہانی کا کوئی ایک ورزن نہیں ہے۔ اس کےبے شمار اندازہیں۔ کئی راستے ہیں
کوئی انسان زندگی کی کہانی کے جس بھی ورزن پرچاہے یقین رکھے ، مگر اس کے لیے ضروری ہےوہ اسی ورزن کے مطابق اپنے فریضے کا ادراکو شناخت کرے۔ ہو سکتا ہے وہ برس ہابرس تکاس شناخت سے نا واقف ہو، مگر ایک دن اس پراس کا نکشاف ہو سکتا ہے اور وہ کاسمک ڈرامےمیں اپنے کردار کو سمجھ سکتا ہے۔ اسے اسکے بعد کئی مشکلات اور آزمائشوں کا سامناہو سکتا ہے، مگر وہ شک اور یاس سے آزاد ہوسکتا ہے۔ گویا ایک انسان اگر یہ جانتا ہےکہ وہ کون ہے ؟ اس کا اپنا راستہ کون ساہے، جس پر اس نے زندگی میں چلنا ہے۔ اوروہ بھٹکے بغیر اپنے راستے پر مستقل مزاجی سے چلتا رہے تو اپنی منزل پاسکتاہے ۔