اے پی ایس پشاور کا سانحہ اور ریاستی پالیسیاں


ایمل خٹک 

آرمی پبلک سکول کے واقعے کو چار سال ھوگئے ۔ قوم اے پی ایس کے سینکڑوں بیگناہ بچوں اور اساتذہ کی المناک شہادت کے واقعے کو ابھی تک نہیں بھولی اور ان کی بہیمانہ شہادت کے زخم اور درد ابھی تک تازہ ہے۔ یہ زخم مندمل ہونے کی بجائے ھر نئے دہشت گرد واقعے سے تازہ ھو جاتے ہیں۔ اے پی ایس کا سانحہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اہم سنگ میل ثابت ھوا ۔

اس واقعے نے پاکستان میں دہشت گردی کےخلاف رائے عامہ کو ہموار کیا اور حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سازگار ماحول مہیا کیا۔ اور قومی اتفاق رائے سے انسداد دہشت گردی کا قومی منصوبہ عمل بنایا گیا ۔اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے بنایا گیا قومی منصوبہ عمل بھی تقریباً چار سال کا ھوگیا ہے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ نیم دلانہ کوششوں اور قوت ارادی کی کمی کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی۔

اچھے اور برے طالبان میں تمیز اور انتہاپسند مذہبی گروپوں کی خوشنودی کی پالیسی کی وجہ سے اس موقع سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اگرچہ ملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی ھوئی مگر عسکریت نواز ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں قیام امن تاحال ایک خواب ہے ۔ اور اس سلسلے میں بیرونی دنیا کی شکایات اور تحفظات ہنوز برقرار ہیں ۔

ان چار سالوں میں دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے چکر میں ہم نے ان کو مین سڑیم کرکے انھیں اسمبلیوں تک پہنچا دیا ہے۔ کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں اور ان کی سرکردہ شخصیات کو نئے ناموں اور طریقوں سے کام کررہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور قبائل علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے دفاتر فعال اور چندہ جمع کرنے ، رضاکار بھرتی کرنے اور پڑوسی ممالک میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں اور وہاں سے ان کے جنازے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ اے پی ایس کے واقعے کے ایک اہم کردار احسان اللہ احسان کو بعض نامعلوم قومی خدمات کی بناء پر وی وی آئی پی پروٹوکول دیاگیا ۔ دہشت گردوں کے ترجمان احسان اللہ احسان خود تو پرسکون زندگی گزار رہا ہے مگر دہشت گردی کے شکار ہزاروں خاندان ابھی تک اپنے پیاروں کی یاد میں کرب اور اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ یہ منصوبہ اے پی ایس پشاور کے دہشت گرد واقعے کے ردعمل میں بنا تھا ۔ اور بد قسمتی سے اس پر عملدرامد کا طریقہ کار بھی پروایکٹیو سے زیادہ ابھی تک ری ایکٹیو ہے۔ اسلئےھر سنگین دہشت گرد کاروائی کے بعد قومی منصوبہ عمل کی فائل کو الماری سے نکال کر اس کی گرد و غبار کو صاف کیا جاتا ہے ۔ ہفتہ دو ہفتہ گہماگہمی رہتی ہے مگر تھوڑے دن گزرنے کے بعد پھر وہی خواب خرگوش کے مزے ۔ امریکہ سے طلاق ملنے کے بعد پاکستانی نکے تے وڈے حکمران امریکہ بہادر کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی کامیابیاں بڑھ چڑھ کر پیش کرنے اور اپنی قربانیاں جتانے میں مصروف ہیں۔جبکہ مولانا خادم جیسی ریاست کے پروردہ کردار ملکی عدلیہ ، آئین اور قانون کا مذاق اڑانے اور دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سبب بن رئے ہیں ۔

پالیسیوں پر عملدرامد کے علاوہ نقص خود پالیسیوں میں بھی ہے اور قوت ارادی کی کمی بھی ھے۔ پاکستانی ریاست کی عسکریت پسندوں کو ایک پالیسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی میں نہ تو تبدیلی کے کوئی آثار ہیں اور نہ ریاست نے ان سے مکمل قطع تعلق کا فیصلہ کیا ہے۔ الٹا سیاسی اور جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کیلئے عسکریت پسندوں اور انتہاپسندوں کو مین سٹریم کرنے کے بہانے استعمال کیا جارہا ہے اور نئے خطرناک مذہبی متشدد رحجانات کو فروغ دینے کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے ۔ تحریک لبیک کے راہنماوں کے حالیہ بیانات خاص کر فوجی سربراہ پر الزامات اور فوج کے اندر بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کے بعد اسٹبلشمنٹ کو کسی قدر ہوش آچکا ہے کہ سنپولوں کو پالنے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔

روایتی مذہبی جماعتوں جہنوں نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے ھر جایز ناجایز کام میں ہاتھ بٹایا خاص کر جہادی پراجیکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کی جگہ اب نئے انتہا پسند اور عسکریت پسند قوتوں کو آگے لانے کی کوشش ھورہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں دہشت اور فساد کی علامت عسکریت پسندوں کو امن جرگوں کے ذریعے مین سٹریم کرکے انھیں پشتون تحفظ موومینٹ اور دیگر سیاسی اور جمہوری قوتوں کی خلاف استعمال کیا جارہا ہے ۔ تحریک لبیک کے راھنماوں کے یہ بیانات آن دی ریکارڈ ہیں کہ گزشتہ انتخابات سے قبل ان کو پارلیمنٹ میں سیٹیں دلانے کے وعدے کیے گئے تھے ۔

پاکستان کو ایک سیکورٹی اسٹیٹ سے ویلفیر یا فلاحی ریاست بننے میں ناقص قومی سلامتی کی پالیسیاں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان غلط اور ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے ملک مسلسل حالات جنگ میں ہے اور بحرانستان بن چکا ہے ۔ ریاست داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں عوامی خواھشات اور مطالبات کی روشنی میں ضروری بنیادی تبدیلیاں لانے کی بجائے شہری آزادیوں کو سلب کرنے ، جبر و ستم اور کنٹرول بڑھانے کے موڈ میں نظرا آتے ہیں ۔ محدود اور کنٹرول ڈیموکریسی کا ایک نیا تجربہ کیا جارہا ہے جہاں مین سڑیم سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے اور میڈیا پر قدغنیں اور بالواسطہ اور بلاواسطہ دباؤ بڑھ رہا ہے اور بدترین قسم کی سنسرشپ ہے۔

مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگئ کی وجہ سے فوج کی ایک بڑی تعداد سرحدی علاقوں میں موجود ہے۔ بعض مفادی حلقے جنگ جویانہ ماحول کو پیدا کرنے اور قایم رکھنے میں مصروف عمل ہے۔ علاقے میں موجود انتہاپسند اپنے بیانات اور حرکتوں سے خطے میں تناؤ اور کشیدگی کی فضا کو برقرار رکھنے کیلئے ایک دوسرے کی موجودگی اور پروپیگنڈے کیلئے جواز فراہم کرتے ہیں۔ علاقے میں کشیدگئ سے حریف ممالک کے فوجی اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ محدود قومی وسائل کے کثیر حصے کا دفاع کی طرف منتقلی کا سماجی شعبے یعنی صحت ، تعلیم اور دیگر سماجی بہبہود اور ترقی کے پروگراموں پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے اس میں اضافے کا امکان اس وجہ سے بھی ہے کہ لگتا ہے پڑوسی ممالک نے بھی پتھر کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے کا ایجنڈا ابھی تک نا مکمل ہے۔ جب تک داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی جاتی اور انسداد دہشت گردی کی مہم کو ھر قسم کی عسکریت پسندی کے خلاف اور بلا امتیاز چلایا نہیں جاتا یعنی اچھے برے عسکریت پسند میں امتیاز کی پالیسی کو ختم نہیں کیا جاتا اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی کی روک تھام کیئے جامع پروگرام نہیں بنایا جاتا ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ھو سکتی۔ اس طرح دہشت گردی ایک مقامی مسلہ نہیں بلکہ سنگین علاقائی اور عالمی مسلہ بن چکا ہے۔ اسلئے اس کے خاتمے کیلئے علاقائی اور عالمی سطح پر مربوط اور ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے سب ممالک نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایک پڑوسی ملک کی سرزمین دوسرے پڑوسی کے خلاف استعمال نہ ہو ۔

Comments are closed.