فیمنزم باقاعدہ طور پر آٹھارویں صدی میں عورتوں کے حقوق کی آگاہی کے طور پر سامنے آئی ۔ان میں مزدور عورتوں کی ایسوسی ایشن اور کرسچین ٹمپریشن یونین کا نام شامل ہے۔ان ایسوسی ایشنز نے عورتوں کے ساتھ ہونے والی معاشی اور سماجی غیر مساوی سلوک کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے معاشرے میں متعین کردہ کرداروں کے خلاف آواز آٹھائی ۔
فیمنزم کی ابتدا روشن خیالی کے دور میں ہی شروع ہو گئی تھی ۔ انگلش لیڈی میری اور فرانس کے مارکوئیس دم کندورسیت پہلے تھے جنہوں نے عورتوں کی تعلیم کے بارے کوششیں شروع کیں ۔ لیڈی میری کی کتاب “ خواتین کے حقوق کا خاتمہ ” فیمنزم کی تاریخ میں پہلی کتاب کے طور پر مانی جاتی ہے ۔ لیڈی میری نے یہ کتاب ان لائٹنمنٹ کے خیالات اور فرانس کے ریولیوشن سے متاثر ہو کر لکھی ۔
میری نے یہ محسوس کیا کہ عورتو ں کو تعلیم کے مواقع نہیں ملتے جو کہ مرد اور عورت کے درمیان جنسی ،معاشی اور سماجی فرق کو اور بڑھا دیتے ہیں۔جبکہ عورتیں بھی مردوں کی طرح شعوری اور عقل مند سوچ رکھتی ہیں ۔اس لئے دونوں کو برابر کے حق ملنے چاہیں ۔یاد رہے کہ اس دور میں عورتوں کو ریاضی ،نفسیات اور ٹیکنیک وغیرہ کے مضمون بہت کم پڑھائے جاتے تھے بلکہ عورتیں گھر داری اور اس سے منسلک علم پڑھنے پر مجبور تھیں۔ لیڈی میری نے فلاسفر جین جیکویس روساو کی سوچ کہ لڑکا اور لڑکی کےجنسی کردار مختلف ہیں اس لئے ان کی پرورش بھی مختلف ہونی چاہئے کے خیالات کی بھی نفی کی ہے ۔
یاد رہے کہ جب بھی فیمنزم کی تحریک کی تاریخ پڑھی جائے تو اس کی ابتدا مغربی معاشرے سے ملتی ہے۔مگراب 2018میں انسان ایک گلوبل ولیج میں رہ رہا ہے اور ٹیکنالوجی کی دریافت اور ترقی کے مراحل اس قدر تیز ہوگئے ہیں کہ انسانی رابطے سیکنڈ اور گھنٹوں میں سمٹ گئے ہیں ۔لہذا اس فیمنزم کے اثرات اب تیسری دنیا اور اسلامی ملکوں میں بھی نظر آتے ہیں ۔مگر ان کو ابھی واضح طور پر فیمنزم کےحوالے سے کم ہی لکھا یا سنا جاتا ہے بلکے وہاں کے کلچر یا مذہب کے اس پر اثر یا رنگ دے کر پیش کیا جا رہاہے ۔
جب ہم برصغیر پاک و ہند کی بات کرتے ہیں وہاں پر مختلف مذاہب اور ثقافت کے اپنانے والے لوگ موجود تھے ساتھ ہی غلامی کا دور دورہ بھی تھا مگر اس مؑغربی طاقت کی غلامی کے دور میں مغربی ہی تھےجنہوں نے عورت کے ساتھ ہونے والے انتہائی خوفناک سلوک کے خلاف آواز اٹھائی ۔ جس میں ستّی کی رسم شامل تھی ۔ستی کی رسم کے خاتمے کے لئے اٹھارویں صدی کے درمیان میں پرصغیر میں بحث شروع ہوئی ۔شاید یہ بحث کچھ زور پکڑتی مگر پاکستان کا وجود میں لایا جانا اور اسلامی نظام پر قائم کرنا فیمنزم کی تحریک کو اور اس کے اثرات کو مشکوک اور کمزور کر گیا ۔
گو کہ اسلام کے اصول کے مطابق عورت اور مرد دونوں برابر تو ہیں مگر ان کے کردار خاص اصول کے تحت ان کے بنائے ہوئے مخصوص دائروں میں ہی کام کر سکتے ہیں ۔اس سے فیمنزم کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور عورت ایک انسان کے مرتبے سے گر کر ایک غلام گردش کے اصول کے تحت گھر کی چاردیواری تک محدود ہو جاتی ہے ۔
اگر ہم فیمنزم کی تعریف یا اس کے مقصد کو دیکھیں تو فیمنزم وہ تحریکیں اور نظریات ہیں جن کا مقصد عورت کو اس مقام پر لانا ہے جہاں وہ اپنے حقوق ،سہولتیں اور فرائض عام شہری کی طرح ناں صرف پا سکے بلکے ادا بھی کر سکے ۔ جیسا کہ ایک عام مرد جو کہ پہلے درجے کا شہری ہونے کے ناطے ادا کرتا یا ادا کرنے کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے اس لئے فیمنزم کی سوچ اور بھی وسیع ہو جاتی ہے جس کے مطابق فیمنزم کا کام یہ بھی ہے کہ وہ عورتوں کو سیاسی ،معاشی اور سماجی طور پر ہر اس مقام تک پہنچائے جو کہ ایک فرد کو سول سوسائیٹی میں ملتا ہے ۔
اگر پاکستان کی تاریخ میں فیمنزم کے اندر ہونے والی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو چند نام ہی سامنے آتے ہیں جن میں سے عاصمہ جہانگیر ،فیض احمد فیض ،کشور ناہید ،فہمیدہ ریاض وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں جنہوں نے ناں صرف انفرادی طور پرفیمنزم کے اصول کو اجاگر کروایا
بلکہ کوششیں کی کہ ملکی شرعی قوانین میں بھی تبدیلی لائی جا سکے ۔
مگر تحریک عاصمہ جہانگیر کی ہو یا کسی اور فیمنزم کے جیالے کی سبھی سرما یہ داروں کے قبضے میں ہیں۔پاکستان کا سوشل میڈیا ہو یا ذرائع ابلاغ کا کوئی اور ادارہ وہ ڈرامے اور کہانیاں پیش تو کرتے ہیں مگر اسکا اخلاقی پہلو وہ بھی اسلامی نقطہ نظر اور ثقافت سے نکال کر فیمنزم کے اصل اصول اور مقصد کو فوت کر دیتا ہے ۔ سرمایہدار کا یہ منافقانہ رویہ سماج میں کوئی بہتر تبدیلی یا تحریک کو جنم دینے کے بجائے فیمنزم جسکا مقصد صرف اور صرف عورت کی سیاسی ،معاشی اور سماجی بھلائی کرنا تھا اس کے مفہوم کو بدل کر عورت کے ملکی معاشیت کو بہتر بنانے کے کردار کے رخ کو موڑ کر عورت یا فیمنزم کی انسانی سوچ کو عیاش اور مغربی پراپیگنڈہ کا نام دے کر پرانی اور بوسیدہ سوچ کو زندہ رکھ رہا ہے اور اپنی تجوریاں بھر رہا ہے ۔
حاصل کلام تو یہ ہے کہ فیمنزم کی سوچ کو مذہبی اور پرانی ثقافتی گروپس سے خطرہ تو تھا ہی مگر اس سارے کھیل میں پاکستان کا سرمایہ دار ذرائع ابلاغ کا استعمال کر کے پیسہ کما کر اتنا بڑا اجارہ دار بن گیا ہے کہ وہ اب مذہبی گروپس کو کبھی بھی طاقت کے طور پر استعمال کر کے فیمنزم کے نام کو ہی پاکستان سے ختم نہ کروا دے ۔لہذا کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ فیمنزم اور اس کے نظریات کو اصلی شکل میں پیش کیا جاے تاکہ فیمنزم کو نوجوان عورت اور مرد پاکستانی معاشرے کے اندر اپنی سوچ سے بہتر بنا سکیں ۔