مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 47 سال بیت چکے ہیں لیکن ہمارا ماتم، سینہ کوبی اور آہ و زاری بدستور جاری و ساری ہے ۔ نصف صدی ہونے کو آئی ہے لیکن ہم آ ج بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے بنگالی عوام سے جو غیر انسانی سلوک روا رکھا تھا اس کا منطقی نتیجہ بنگلہ دیش کا قیام ہی تھا۔ہم بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے بھارت کی سازش اور جارحیت قرار دیتے ہیں۔ہم بنگلہ دیش میں ہوئے فوجی آپریشن کا مختلف حیلوں بہانوں سے دفاع کرتے اور بنگالیوں کے قتل عام کو مبالغہ آرائی قرار دیتے ہیں ۔ہمارا ریاستی بیانیہ اور میڈیا بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری کو مشکوک سمجھتا اور اسے بھارت کی’ نوآبادی‘ قرار دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک’ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بن گیا ‘ بارے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوسکا اور اس بارے میں جو کچھ مواد ہمیں ملتا ہے وہ زیادہ تر پاک فوج کے جرنیلوں کا لکھا ہوا ہے۔ جہاں تک سویلین کنٹری بیوشن کا تعلق ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔جرنیلوں نے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا کو فوجی نکتہ نظر سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس معاملے کو ’دشمن،غداری، اسلحہ کی کمیابی، فوجی قیادت کی نااہلی اور فتح و شکست‘ کے سیاق و سباق میں بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ جہاں تک بنگالی عوام اور ان کی آزادی کے لئے جدوجہد کا تعلق ہے وہ ان کے بیانئے میں کہیں نظر نہیں آتی۔
مشرقی پاکستان میں تعنیات فوجی جرنیلوں۔۔میجر جنرل خادم حسین راجہ، میجر جنرل راو فرمان علی خان اور لیفٹیننٹ جنرل اے۔اے ۔کے نیازی نے اس بارے میں جو کتابیں لکھی ہیں ان میں وہاں ہوے فوجی آپریشن اور شکست کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہوئے اپنے کردار کا دفاع کا کیا ہے ۔ جنرلز کی لکھی ہوئی ان کتابوں کی ایک مشترک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں بنگلہ دیش کے قیام کا ذمہ دار سیاسی قیادت کو ٹھہرایا گیا ہے ، مجیب ان کے نزدیک غدار اور بنگلہ دیش کا قیام بھارتی سازش و ریشہ دوانیوں اور جارحیت کا شاخسانہ تھا۔
میجر جنرل راو فرمان علی خان نے اپنی کتاب ’ پاکستان دو لخت کیسے ہوا‘میں بھی یہی کچھ کیا ہے۔ ان کی یہ کتاب 1992میں انگریزی میں شایع ہوئی تھی جس کا اردو ترجمہ ترامیم اور اضافوں کے سا تھ 1999 میں شائع ہوا تھا۔ کتاب کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان والے محرومی کا شکار تھے اور خود کو مغربی پاکستان کی نوآبادی سمجھتے تھے۔مغربی پاکستان کے افسران کا حاکمانہ رویہ اور مارشل لا کا یکے بعد دیگرے نفاذ جب کہ فوج میں بنگا لیوں کی تعدا د نہ ہونے کے برابر تھی ایسی وجوہات تھیں جنھوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کی تھی لیکن اگلے ہی صفحے پروہ لکھتے ہیں کہ ’ بغیر کسی تردد کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ شکست قومی سیاسی لیڈروں کی سیاسی نااہلی ،ذاتی انا اور مفاد کی جدوجہد کا نتیجہ تھی‘۔
میجر جنرل راو فرمان علی خان کو پہلی دفعہ 1962میں بنگال جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں’ لوگوں کی زبان پر کلکتہ کے قتل عام( تقسیم کے وقت ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران) یا ہندووں کی زیادتیوں کی بجائے اپنے ہم وطنوں کے شکوے شکایات زبانوں پر تھے‘۔ کچھ عرصہ بعد انھیں دوبارہ مشرقی پاکستان جانے کا موقع ملا۔ ان دنوں ملک پر ایوبی آمریت مسلط تھی اور مشرقی پاکستان کے گورنر منعم خان تھے جس کے بارے عمومی تاثر یہ تھا کہ اس نے صوبے میں امن و امان قائم کردیا ہے لیکن جب ہم’ ڈھاکہ پہنچے تو کچھ اور ہی نقشہ نظر آیا ۔ دیواروں پر جابجا ایوب خان مردہ کے نعرے دیکھ کر مجھے زبردست دھچکا لگا ۔ شہر کے پڑھے لکھے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہاں کے عوام میں گہر ا احساس محرومی پایا جاتا ہے ‘۔
سال 1963 میں ایک دفعہ پھر میجر جنرل فرمان علی خان کو ڈھاکہ جانے کا اتفاق ہوا تھااور’اس قیام کے دوران ہمارے مشاہدے میں جو کچھ آیا وہ بڑا ہی مایوس کن اور حوصلہ شکن تھا ۔مغربی پاکستان والے اس ذہنی تبدیلی سے یکسر بے خبر تھے جو مشرقی پاکستان میں پیدا ہورہی تھی تمام اہم دیواریں ایوب خان مردہ باد سے بھری پڑی تھیں‘۔
جنرل فرمان کو 1967 میں ڈپٹی ڈائیریکٹر ملٹری آپریشن مقر ر کیا گیا ۔ اس عہدے پر ان کے پیش رو بنگالی کرنل عثمانی تھے جو گذشتہ آٹھ سالوں سے اس عہدے پر فائز تھے۔ جنرل فرمان کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے دوران انھیں جنرل کا رینک دے دیا گیا تھا لیکن پاکستانی فوج نے انھیں ترقی کا اہل نہیں سمجھا تھا۔بنگالی ہونے کی حیثیت سے شائد اعلی افسران ان پر اعتماد نہیں کرتے تھے، میں چارج لینے ان کے پاس پہنچا تو یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ ان کے پاس کام کرنے کے لئے کوئی فائل نہیں بھیجی جا رہی تھی ۔
میجر جنرل راو فرمان علی خان بطور بریگیڈئیر اور میجر جنرل سول آفیئرز(ان کا عہدہ ظاہر کرتا ہے کہ فوج کس قدر مشرقی پاکستان کے امور میں دخیل تھی) کم و بیش دس سال تک مشرقی پاکستان میں تعنیات رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ میں نے 1967 میں انتہائی تشو یش ناک صورت حال دیکھی تھی۔ملک کی شکست و ریخت کے بارے میں رحجانات صاف نظر آنے لگے تھے۔بنگلہ دیش کے مطالبہ پر کھلی بحثیں ہوتی تھیں۔ عام بنگالیوں کی آنکھوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت صاف جھلکنے لگی تھی جو بنگالی معاشرتی لحاظ سے بہتر تھے یا مغربی پاکستانیوں کے ساتھ کسی قسم کے روابط رکھتے تھے دوسرے بنگالی انھیں اچھا نہیں سمجھتے تھے اور اور ان کا سماجی بائیکاٹ کرنے لگے تھے
اردو جسے مغربی پاکستانی تسلط کا نشان سمجھا جاتا تھا کے خلاف مہم اتنی شدت اور وسعت اختیار کرگئی تھی کہ کہیں بھی اردو میں لکھا ہوا سائن بورڈ نظر نہیں آتا تھا۔تمام دوکانوں پر بنگالی میں لکھے ہوئے بورڈز آویزاں تھے ۔اگر کوئی شخص ڈھاکہ کے کسی بازار کے وسط میں کھڑا ہو کر دائیں بائیں دیکھتا تو خود کو بالکل اجنبی اور بدیسی محسوس کرتا ۔کوئی شخص اردو میں سوال پوچھ بیٹھتاتو اسے اول تو جواب نہیں ملتا تھا ۔ملتا تھا انگریزی میں ہوتا۔اردو سے نفرت کی مہم نے مذہبی دائرہ پر بھی اثر انداز ہونا شروع کردیا تھامیں نے بہت سے طلبہ کو یہ کہتے سنا کہ ہم نے قرآن حکیم کی تلاو ت ترک کردی ہے کیونکہ وہ اردو رسم الخط میں لکھا ہے‘۔
قیام ڈھاکہ کے دوران انھیں جلد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ’ ڈھاکہ یونیورسٹی ایسا آزادو خود مختار جزیرہ ہے جس میں پاکستانی پرچم نہیں لہرایا جاسکتا اور نہ ہی لہرایا جاسکا۔گورنر مشرقی پاکستان میجر جنرل مظفرالدین نے ترغیب تحریص اور تخویف و ترہیب سے دونوں گروپوں( بنگالیوں اور مغربی پاکستانیوں بالخصوص پنجابیوں)کو باہم شیر و شکر کرنے کی انتہائی کوشش کی تاہم وہ اس میں ناکام رہے۔ ان کی ناکامی کے پس پشت دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مغربی پاکستان والے بنگالی نہیں بول سکتے تھے‘۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے موقف میں بہت فرق تھا۔بنگالی ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حق میں تھے اور خود کو ان کا قدرتی تجارتی حلیف سمجھتے تھے جب کہ مغربی بازو میں ہندووں کے خلاف بڑے شدید جذبات بلکہ نفرت پائی جاتی تھی‘۔
سال1970الیکشن میں فوجی حکومت نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو شکست دینے کے لئے اسلام پسند جماعتوں کو صنعتکاروں کے تعاون سے ملی مدد بہم پہنچائی۔’ عوامی لیگ کی اکثریت گھٹانے کے کی غرض سے میں نے نورالامین اور خواجہ خیرالدین کی ان کوششوں کا ساتھ دیا جو وہ اسلام پسند پارٹیوں کے مابین یک جہتی و ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے بروئے کار لا رہے تھے‘۔ دسمبرالیکشن کے بعدجب فرمان علی صدر جنرل یحییٰ خان سے ملے تو انھوں کرسی پر بیٹھتے ہی کہا کہ ’ میں اس حرامزادے( مجیب) کو مزہ چکھانے والا ہوں‘ ۔ میں نے کہا سر وہ اب حرام زادہ نہیں عوام کا منتخب نمائندہ ہے۔ صدر یحیی خان پہلے ہی خفا تھے اور اسمبلی کا سیشن ملتوی کرنے کا ذہن بنا چکے تھے ۔ اس کا ذکر آیا تو تو میں نے کہا سر اس کے نتیجے میں ہمیں فوجی آپریشن کرنا پڑے گا ۔ صدر نے جواب دیا کوئی مضایقہ نہیں، وہ بھی کریں گے۔
جنرل فرمان نے ساتھی جنرلز نیازی، جنرل جمشید اور جنرل رحیم کی بزدلی اور سنگین صورت حال میں ذمہ داری سے گریز کے بہت سے واقعات رقم کئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ 16 دسمبر کو ہتھیار ڈالنے سے قبل جنرل نیازی بھارتی جنرل ناگرہ کو فحش لطیفے لطیفے سنارہے تھے۔ جنرل فرمان کے بقول جنرل نیازی بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکے تھے نہ ان کا ذہن صاف تھا نہ ان کا ضمیر۔ان کی کاروائیاں مظالم سے پاک نہیں تھیں۔وہ مکافات عمل سے خوفزدہ تھے۔ ان کی حالت جذبات سے عاری گڑیا کی سی ہوگئی تھی ان کی بازار مسکراہٹ اور بلند وبانگ دعوے کافور ہوچکے تھے۔لوگوں نے انھیں اپنے دفتر میں روتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ اب خواہ کچھ کہیں اور کتنے ہی بہادر بنیں اس ان کی حالت بڑی قابل رحم تھی وہ بڑی بے بسی کے ساتھ ہر اس شخص سے مدد کے خواہا ں تھے جو ان کے خیال میں کسی قسم کی مدد کرسکتا تھا‘۔
جنرل فرمان کہتے ہیں جب وہ سولہ دسمبر کو جنرل نیازی کے دفتر میں داخل ہوے تو وہاں کا منظر دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔’نیازی اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور جنرل ناگرہ ان کے سامنے کرسی پر براجمان تھا مکتی باہنی کا ٹائیگر صدیقی بھی جنرل کی یونیفارم میں وہاں موجود تھا۔نیازی بڑے خوشگوار موڈ میں تھے اور اردو اشعار گنگنارہا تھے۔ میں سلیوٹ کر کے ایڈمرل شریف کے پہلو میں رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔نیازی نے جنرل ناگرہ سے پوچھا آیا وہ اردو شاعری سمجھتے ہیں؟ ناگرہ نے برجستہ جواب دیا ’’ میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فارسی میں ایم۔اے کیا تھا‘‘۔ چونکہ وہ نیازی سے زیادہ پڑھا لکھا نکلا اس لئے نیازی نے پنجابی میں لطیفے سنانے شروع کردیئے‘‘۔ جنرل فرمان علی خان کے الفاظ اس بات کا اشارہ ہیں جنرلز کے لئے مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیشن بننا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔
**