دانائی کی تلاش میں ۔۔۔ ایک غیر دانائی تبصرہ

مصنّف:     خالد سہیل

تبصرہ نگار:  حبیب شیخ

دانائی کیا ہے؟  مفکّر کسے کہتے ہیں؟  دانشور کی کیا خصو صیات ہونی چاہئیں  اور کوئی دانشور کیسے بن سکتا ہے؟  کیا کچھ لوگ پیدائشی دانشور ہوتے ہیں؟

اگر چہ یہ بہت سادہ سوالات ہیں لیکن  ان کے جوابات اتنے ہی کٹھن اور پیچیدہ ہونگے۔  اور  شاید مختلف لوگوں کے  یہ جوابات  بھی ایک دوسرے کے لیے  ناتسلی بخش  اور  بہت مختلف ہوں۔

خالد سہیل کی کتاب  ” دانائی کی تلاش میں”  نے براہِ راست ان سوالوں کے جوابات نہیں دئے لیکن کتاب پڑھنے کے بعد قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے  جوابات کافی حد تک مل گئے ہیں۔  اور اپنی فکری پیاس بجھانے کے لئے اس کو علم کے گہرے  پانیؤں  میں غوطے لگانے کی ضرورت ہے۔

“دانائی کی تلاش میں” میں پانچ سو قبل ِ مسیح سے لے کر 2018 سنہ تک کی وسیع مدّت میں چالیس مشہور و  معروف مفکّروں کی مختصر سوانح حیات ہے  بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ یہ کتاب  مفکّرین  اور  دانشوروں کے بارے میں اپنی  نوعیت کی اردو  زبان میں انتھلوجی  ہے ۔  اس کتاب میں خالد سہیل نے کئی سمندروں کو ایک کوزہ میں بند کردیا ہے ۔   ان میں سے ہر مفکّر پر دنیا کی بے شمار زبانوں میں ان گنت کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔  لیکن  اتنے مشہور مفکّروں کو ایک ہی کتاب میں سما دینا غالباً اردو زبان کی اوّلین کوشش ہے۔  میرے خیال میں ایک عام آدمی  کے لئے اس چھوٹی سی تقریباً سو صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھ کر ان مفکّرین کی مختصر سوانحِ حیات  کے ساتھ ان کی فکر ی کام  کےبارے میں  ایک نشاندہی  ہو  جاتی  ہے ۔  پھر اس ابتدائی معلومات کے  زریعےسے قاری جن  اصحابِ فکرسے متاثر ہو اُن کے  بارے میں  مزید  علم  دوسرے ذرائع  ابلاغ سے  پورا کر سکتا ہے۔  یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ   یہ کتاب مفکّروں کے بارے میں جاننے کے لئے پہلا  مثبت قدم ہے ۔   

ہر مفکّر دانشور نہیں ہوتا۔  دانشور انسانی فکر کی  حدود میں توسیع کرتے ہیں اور انسانی شعور اور ارتقاء کے سفر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔  لیکن دنیا میں بہت سے مفکرین ایسے بھی آئے ہیں جنہوں نے  دانائی کی تلاش میں انسانی فکر کی حدود کو تنگ کرنا  چاہا اور انسان اور معاشرے کو زوال کی طرف یا جنگ و جدل کی طرف دھکیل دیا۔  میرے نزدیک انسانی فکر بغیر شعور کے ایک خطرناک عمل ہے۔

درجِ ذیل ان مفکرین کی فہرست ہے جن کی سوانح عمریاں اس کتاب کی زینت بنی ہیں ۔

 کنفیوشس   (سیاست،  فلسفہ،  اخلاقیات)،  لاؤزو   (فلسفہ ،  اخلاقیات)،  بدھا   (فلسفہ ،  رھبانیت)،  مھاویرا   (فلسفہ ،  رھبانیت)،  زرتشت   (مذہب،  اخلاقیات)،  سقراط   (فلسفہ،  منطق،  سیاست)،  افلاطون   (فلسفہ،  سیاست)،  ارسطو   (فلسفہ،  سیاست،  سماجیات)،  بقراط   (طب)،  جالینوس   (طب )،  الکندی   (فلسفہ،  طب)،  الفرابی   (فلسفہ،  طب،  موسیقی)،   الرازی   (طب،  کیمیا،  فلسفہ)،  بوعلی سینا  (طب،   فلسفہ)، الغزالی   (مذہب،  فلسفہ،  قانون)،  ابن رشد   (فلسفہ،  طب،  مذہب،  طبیعات)،  ابن  تيميہ   (مذہب)،   ابن خلدون   ( تاریخ،  سماجیات،  فلسفہ)،  رینی ڈیکارٹ  ( فلسفہ،  ریاضی)،  ڈیوڈ ہیوم  (فلسفہ،  تاریخ،  معاشیات)،  جون روسو   (موسیقی،  سماجیات،  سیاست)،  ایڈم سمتھ   (معاشیات،  فلسفہ)،  ایملی ڈرکھائم   (سماجیات،  نفسیات،  معاشیات)،  میکس ویبر  (معاشیات،  سماجیات)،  جارج ہیگل  ( فلسفہ،  سیاست،  مذہب)، 

کارل مارکس  (فلسفہ،  معاشیات،  سماجیات)،  اونٹونیوگرامچی  ( فلسفہ،  معاشیات)،  لوئی التھوزر  (فلسفہ،  معاشیات)،  فریڈرک نیٹشے   (فلسفہ،  معاشیات)،  چارلس ڈارون  ( فلسفہ،  سائنس)،  سٹیفن ہاکنگ  ( فلسفہ،  سائنس)،  سگمنڈ فرائڈ   (طب،  نفسیات)،  کارل ینگ  (نفسیات)،  ژاں پال سارتر  ( فلسفہ،   نفسیات)،   ایرک فرام   (نفسیات،  سماجیات،  سیاست)،  کوفی انان  (سیاست)،  محمد یونس   (معاشیات)،  مارٹر لوتھر کنگ جونیئر  ( سیاست،  سماجیات)،  نیلسن منڈیلا   (سیاست،  سماجیات)۔

یہ تمام مفکّرین کسی نہ کسی لحاظ سے فلسفی تھے۔  ان میں سے کچھ تو عظیم فلسفہ دان تھے۔  ایک بات قابل ذکر ہے کہ ان میں کئی فلسفی جیّد طبیب بھی تھے۔  یہ مفکّر غیر روائیتی لوگ تھے اس لئے ان کو معاشرے نے قبول نہیں کیا۔  مصنف نے صفحہ  105 پر تحریر کیا ہے

“جب ہم دانشور وں کی سوانح عمریاں پڑھتے ہیں

تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ ان فلسفیوں اور سائنسدانوں نے اپنی سوچ ، اپنی فکر اور اپنے آدرش کے لئے کتنی قربانیاں دیں۔۔۔بعض کو جیل میں ڈال دیاگیا۔۔بعض کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔۔۔بعض کو ملک بدر کر دیا۔۔۔بعض کی کتابوں پر حکومتی اور مذہبی اداروں نے پابندیاں لگا دیں۔۔۔اور بعض اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔”

اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ مفکّرین جب ذہنی توازن کھو بیٹھنے کے بعد صحت یاب ہوئے  

breakdown to breakthrough 

تو ان کی فکر میں نمایاں تبدیلی آگئی۔  مثلاً الغزالی  نفسیاتی بحران سے پہلے سائنس اور فلسفے کی تدریس کرتے تھے مگر صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو  سائنس اور فلسفہ  ترک کر کے تصوّف اختیار کرنے کے لئے کہا۔  جارج ہیگل کو نفسیاتی بحران کے درمیان کچھ روحانی تجربات ہوئے۔  صحت مند ہونے کے بعد وہ ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالنا چاہتے تھے۔

خالد سہیل  کی اس کتاب  میں  “مسلمانوں کا سنہرا دور اور اس کے بعد۔۔۔۔”  ایک دلچسپ باب ہے کیونکہ اس میں اس سنہری دور کے زوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں۔  کتاب کے آخر ی حصے کے  باب  ” مذہبی سچ، روحانی سچ اور سائنسی سچ ”  میں  سچ کو تلاش کرنے والوں کےتین مختلف طریقوں کو بیان کیا گیا ہے اور  اس سے اگلے باب ” مفکّر اور انسانی شعور کا ارتقا” میں  مفکّروں کی خدمات اور قربانیوں کو سراہا گیا ہے۔  کتاب کے آخر میں 

SUGGESTED READINGS 2017      

میں اسّی کتابوں اور مقالوں کی فہرست ہے تا کہ وہ قاری جس کی علمی پیاس کو اس کتاب نے بڑھا دیا ہے وہ دانائی کی  جستجو میں اگلی سیڑھی پر قدم رکھ کر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔  یہ بات قابل نوٹ ہے کہ اس فہرست میں کئی وہ مفکّرین بھی شامل ہیں جو اس کتاب کا حصّہ نہ بن سکے  مثلاً  چند  نام جن کے بارے میں پہلے سے جانتا ہوں:    حافظ،  خلیل جبران،  والٹ وٹمین،  شیخ سعدی،  محمد اقبال۔

میں نے  اس کتاب  میں سے چند نگینے چنے ہیں جو درجِ ذیل ہیں:

٭کنفیوشس کا قول جو  سنہری اصول کہلاتا ہے۔  “دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے  ساتھ کریں۔”  (صفحہ  9)۔

٭لاؤزو کے بارے میں بعض مورخوں کا خیال ہے کہ وہ  ایک تاریخی نہیں بلکہ دیومالائی شخصیت تھے۔  ان کی کتابیں دراصل بہت  سے بزرگوں اور مفکّروں کے اقوال کا مجموعہ ہیں۔  (صفحہ  11)۔

٭بدھا سے ایک تاجر نے پوچھا کہ انہوں نے اپنی ریاضت سے کیا سیکھا تو انہوں نے جواب دیا۔ ” میں سوچ سکتا ہوں۔  میں بھوکا رہ سکتا ہوں۔  میں انتظار کر سکتا ہوں۔”  (صفحہ  17، 18)۔

٭زرتشت نے اپنی  کتاب گاتھاز  میں انسانی تاریخ میں پہلی بار  ایک خدا کا تصور،  قیامت کا تصوّر اور جنت و دوزخ کا تصور پیش کیا ۔  (صفحہ  23)۔

٭سقراط کو مغربی سائنس اور فلسفے کا باپ سمجھا جاتا ہے۔  سقراط  پر یونان کی حکومت نے دو الزامات لگائے۔ پہلا الزام نوجوانوں کے ذہنوں کو غلط راہ پر لگانا تھا اور دوسرا الزام اپنے عہد کے دیوتائوں سے انکار تھا۔  سقراط مقدمہ ہار گئے۔  ان سے کہا گیا کہ  یا وہ ملک بدر ہو جایئں یا زہر کا پیالہ پی لیں۔  سقراط نے بخوشی زہر کا پیالہ پی لیا اور اپنے آدرش کے لئے جان دے دی۔   (صفحہ  23)۔

٭افلاطون نے اپنی کتاب    

Republic   

میں سقراط کے ساتھ جو مکالمے درج کئےہیں  ان میں ایک مثالی حکومت کا تصوّر پیش کیا گیا ہے۔  (صفحہ  24)۔

٭ارسطو  کا کہنا تھا کہ معاشرے میں درمیانے درجے کے لوگ زیادہ ہوں گے تو جمہوری نظام قائم کرنے میں آسانی ہو گی۔  اگر امیروں اور غریبوں میں فرق زیادہ ہو گا تو  جمہوری نظام قائم کرنا مشکل ہو گا۔  (صفحہ  24)۔

٭ بقراط  وہ پہلے طبیب تھے جنہوں نے طب کو مذہب سے علیحدہ کیا ۔  وہ  مریضوں کو ادویہ اور جڑی بوٹیاں دینے کے بجائے کوشش کرتے تھے کہ مریض کا جسم فطری طور پر صحتمند ہو جائے۔  وہ  اپنے مریضوں سے کہتے تھے  کہ وہ متوازن کھانا کھائیں،  نیند کا خیال رکھیں،   پانی زیادہ پئیں،  اور روزانہ ورزش کریں۔  (صفحہ  26، 27)۔

٭جالنیوس  بہت سی بیماریوں کا علاج  جراحی سے کرتے تھے۔  وہ کہا کرتے تھے۔   “بہترین طبیب ایک فلسفہ دان بھی ہوتا ہے” ۔  (صفحہ  29، 30)۔

٭الراضی نے بچوں کی بیماریوں پر پہلی کتاب لکھی ۔  اس لئے وہ  طب کی دنیا میں

Father of Pediatrics   

   کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ صفحہ  32

٭الفرابی  مغربی دنیا میں

  کے نام Second Master  

سے جانے جاتے ہیں جبکہ ارسطو کو مغربی دنیا

 First Master  

مانتی ہے۔  الفرابی نے موسیقی کے بارے میں بھی کتاب لکھی اور یہ  بتایا کہ موسیقی نفسیاتی مریضوں کو سکون دے سکتی ہے ۔ (صفحہ  33)۔

٭بو علی سینا  جو  الکندی  اور  الراضی کی طرح طبیب بھی تھے،  ادیب بھی تھے اور فلسفی بھی  انہوں نے طب کے بارے میں دو کتابیں

  Cannon of Medicine, The Book of Healing

  تخلیق کیں ۔  یہ کتابیں کئی صدیوں تک  یورپ کی جامعات میں نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی تھیں ۔  (صفحہ  33)۔

٭الغزالی  ذہنی خلفشار کا شکار ہونے سے پہلے سائنس اور فلسفے کی تحقیق و تعلیم کے حق میں تھے لیکن بعد میں طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد ان کی تعلیم کے خلاف ہو گئے اور ایک کتاب  

Incoherence of Philosophers 

لکھ کر اپنا موقف پیش کیا۔  اس کتاب کا جواب ابن الرشد نے  ایک کتاب 

Incoherence of Incoherence      

لکھ کر دیا  (صفحہ  35)۔

٭مسلمانوں کے سنہری دور کی آخری صدی میں ایک فلسفی  ابن  تيميہ  تھے۔  انہوں نے تشدّد کا راستہ اختیار کیا اور ان مسلمانوں کے خلاف  جو منگولوں سے نہیں لڑنا چاہتے تھے  جہاد کا فتویٰ صادر کیا اور اس طرح  مذہب کے نام پر مسلمان کے ہاتھ سے مسلمان کے قتل کا راستہ کھول دیا۔  اس کے علاوہ انہوں نے توہینِ رسالت کے مرتکب  ایک عیسائی پادری کے لئے قتل کا فتویٰ  جاری کیا ۔  شام کا گورنر اس فتوے  سے اتنا برہم ہوا کہ  اس نے ابن  تيميہ  کو جیل میں ڈال دیا  (صفحہ  36،  37)۔

٭ابنِ خلدون کو جدید سماجیات کا بانی مانا جاتا ہے۔  انہوں نے  ایک فلسفہ دان کی حیثیت سے چارلس ڈارون سے کئی صدیاں قبل زندگی کے ارتقا کا نظریہ پیش کیا تھا ۔  (صفحہ  39)۔

٭رینی ڈیکارٹ کا قول ” میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں” بہت مشہور ہوا۔  وہ  جدید فلسفے کے بانی سمجھے جاتے ہیں ۔  (صفحہ  41)۔

٭آدم اسمتھ کا موقف تھا کہ لوگ ذاتی مفاد کے لئے زیادہ کام کرتے ہیں۔ بہت سے ماہرِ اقتصادیات ان کو جدید معاشیات کا بانی سمجھتے ہیں ۔  (صفحہ 50، 51)۔

٭جارج ہیگل نے انسانی تاریخ کے حوالے سے

Thesis…Anti-Thesis…Synthesis

 کا تصور پیش کیا کا جو بہت مقبول ہوا ۔  (صفحہ 59)۔

٭کارل مارکس نے اشتراکی معاشیات کا تصور پیش کیا ۔  1848 میں انہوں نے 

Communist Manifesto 

کے عنوان سے کتاب لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔  کچھ سالوں بعد انہوں نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب 

Das Kapital

لکھی ۔  مارکس کو اپنی شاہکار کتاب لکھنے میں پچیس سال لگے ۔  (صفحہ 63،64)۔

٭فریڈرک نیٹشے کا جملہ  “خدا مر گیا ہے” بہت مشہور ہوا۔  نیٹشے کو مذہب پر یہ اعتراض تھا کہ مذہب نے اچھے اور برے کو نیکی،  بدی،  اور گناہ و ثواب میں بدل دیا ہے ۔  (صفحہ 70،71)

٭چارلس  ڈارون نے یہ سائنسی نظریہ پیش کیا کہ انسان کی تخلیق لاکھوں سالوں کے ارتقا کا نتیجہ ہے ۔ ڈارون نے 1858 میں اپنی مشہور کتاب

  چھاپی Origin of Species  

٭سٹیون ہاکنگ کا نظریہ کہ بلیک ہول

Black Hole  

ایک طرح کی لہریں خارج کرتے ہیں  اب درست ثابت ہو گیا ہے او ر

Hawking Radiation   

کہلاتا ہے۔  ہاکنگ اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے ارد گرد صرف ایک کائنات نہیں بلکہ بہت سی کائناتیں ہیں۔  ایک دن کوئی بھی کائنات پھیلنا بند کر کے سکڑنا شروع کر دیتی ہے اور سکڑتے سکڑتے  کسی بلیک ہول  میں فنا ہو جاتی ہے۔  پھر اس بلیک ہول سے ایک اور کائنات پیدا ہوتی ہے ۔  (صفحہ  79، 81، 82)

٭سگمنڈ فرائڈ نے 1900 میں اپنی معرکتہ الآرا کتاب

Interpretation of Dreams

لکھی جسے تحلیلِ نفسی کے طلبا اور اساتذہ آج بھی تورات کی طرح ایک مقدس کتاب سمجھتے ہیں۔  (صفحہ 83)۔

٭ژاں پال سارتر وجودیت کے فلسفے کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔  انہیں 1964 میں ادب کا نوبل انعام ملا تو انہوں نے انعام لینے سے انکار کر دیا۔  (صفحہ 88)۔

٭بی بی سی کے ایک انٹرویو کے دوران  صحافی نے کوفی انان سے  پوچھا ۔” کوفی انان! کیا امریکہ کا عراق پر حملہ غیر قانونی تھا؟ ”  کوفی انان نے جواب دیا “ہاں”۔  ایک سچ لفظ  “ہاں” کہنے کی وجہ سے وہ دوبارہ اقوامِ متحدّہ کی سیکرٹی جنرل  نہیں بن سکے ۔  (صفحہ 94، 95)۔

٭بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس نے دیہاتی سطح پر گرامین بینک    بنانے شروع کئے اور عورتوں کے لئے چھوٹے چھوٹے قرضوں کا اجرا کیا۔  2006 میں  ان کے  نوبل انعام حاصل کرنے تک  تہتّر ہزار دیہاتوں سے ستّر لاکھ عورتوں نے قرضے حاصل کر کے بینک سے استفادہ کیا تھا۔  (صفحہ 97)۔

٭مارٹن لوتھر کنگ جونئیر اور ان کے ساتھی اپنے آدرش کےلئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیّار تھے لیکن دوسروں کی جانیں لینے کے لئے نہیں ۔  (صفحہ 99)۔

٭نیلسن منڈیلا نے  1993 میں اپنے نوبل انعام کی تقریر میں فلسفہِ امن پر روشنی ڈالی۔  منڈیلا نے کہا  “ہم چاہتے ہیں کہ یہ دنیا غربت اور جہالت سے پاک اور جنگوں کے خوف سے آزاد ہو۔  ہمیں  اس ڈر سے نجات ملے کہ لاکھوں لوگوں کو مجبوراً مہاجر  بننا پڑے گا۔” (صفحہ 100) ۔

ایک یہ سوال میرے ذہن میں ضرور ابھرتا ہے کہ دنیا میں سیکڑوں نامور مفکّرین آ چکے ہیں تو  مصنف  نے کن بنیادوں پر ان چالیس مفکرین کا انتخاب کیا ہے ۔  شہرت کی بنیاد پر،  یا ان کے کام کی بنیاد پر یا محض اپنی پسند کی بنیاد پر؟  ان میں سے بہت سارے ایسے مفکّرین  ہیں جن کے کام اور نظریات کو ساری دنیا سراہتی ہے مثلاً کنفیوشس،  سدھارتا (بدّھا) ،  سقراط۔  لیکن  ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ  یا طریقہ کارموجود نہیں ہے جو ہمیں بتا سکے کہ کون سے چالیس مفکّر دوسروں سے بہتر ہیں  اس لئے اس بحث میں الجھنا  بیکار ہے۔  پھر بھی ان  فلسفیوں کے انتخاب کے بارے میں مصنف  نے ضرور کوئی  طریقہ سوچا ہوگا۔  میں یہاں اپنی  رائے دینا چاہتا ہوں

٭اس کتاب میں البرٹ آینسٹائن کا تزکرہ ضرور ہے ۔  ان کی سوانح عمری اور ان کے کام کو  اس کتاب میں واضح جگہ دینی چاہئے تھی۔  ان کا اپنے بارے میں کہنا تھا کہ وہ فلسفی زیادہ ہیں اور ماہر طبیعات کم۔

٭جلال الدّین  رومی کو  نہیں منتخب کیا گیا  شاید اس لئے کہ ان کو صوفیانہ شاعری کی نسبت  سے زیادہ پہچانا جاتا ہے اور فلسفی کی حیثیت سے کم۔  

٭ابوالولید ابنِ رشد کو  زیادہ  اہمیت ملنی چاہئے تھی۔  ارسطوکی کتابوں  پر  ابن الرشد کی گئی  شرحیں جب یورپ پہنچیں تو کیتھولک چرچ  میں ہلچل مچ گئی۔  سنہ  1215 میں  جب پوپ نے ان کتابوں پر پابندی لگا دی  تو  یہ کتابیں تعلیم یافتہ طبقے میں بہت مقبول ہوئیں۔  چرچ نے اس کتابوں کے پڑھنے والوں کو بہت سخت سزائیں دیں۔  پیرس میں پروفیسر سیگل کو  ان کتابوں کا پرچار کرنے پر موت کی سزا  دی گئی۔  ابن الرشد کی تعلیمات کا یورپ میں چرچ کی آمریت کو کمزور کرنے میں اہم  کردار ہے

٭برٹرنڈ  رسل  ایک بڑے فلسفی،  ریاضی دان ،  تاریخ دان   اور  سیاسی  کارکن  تھے۔  ان کی  خود لکھی ہوئی سوانح عمری کا  افتتاحیہ   

What I have lived for  

 ایک انتہائی قابل تعریف تحریر ہے۔  ان کی سوانح عمری کو اس کتاب میں شامل نہیں کیا گیا۔

٭الخوارزمی  ایک  انتہائی ذہین ریاضی دان،  ماہرِ فلکیات اور جغرافیہ دان  تھے۔  وہ الجبرا  کے  موجد  مانے جاتے ہیں۔  آج کل مشینی ذہانت 

Artificial Intelligence

کے لئےالگوردم  (کسی  سائنسی  مسئلے کو حل کرنے  کے لئے  تفصیلات)  کا لفظ  استعمال کیا جاتا ہے جو  ان کے لاطینی نام الگوردمی

Algorithmi 

سے اخذ کیا گیا ہے۔  الخوارزمی کا بھی اس کتاب میں  تزکرہ نہیں ہے۔

٭ان مفکّروں کی فہرست میں ابن تیمیہ  اور کوفی انان کا نام دیکھ کر  مجھےحیرانی ہوئی۔  لیکن اس کی وجہ میری لا علمی تھی۔  ابن تيميہ کا کام اور فکر زیادہ تر مذہب تک ہی  محدود تھی لیکن ا ن کے اثرات آج شدّت سے مسلمانوں پر غالب ہیں۔

مجھے امید ہے  ” دانائی کی تلاش میں”   پڑھ کر میری  طرح دوسرے لوگوں کے علم میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا ۔  مجھے یہاں یہ بھی کہنا چاہئے کہ اس کتاب کے مطالعے کے  دوران  مجھے کئی  مفکّرین  اور  دانشوروں کے بارے میں اپنی  لا علمی کا شدید احساس ہوا۔

آخر میں خالد سہیل کو ان کی اس کامیاب کاوش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنا تخلیقی سفر جاری رکھیں گے تا کہ مجھ جیسے لوگ ان کی تحریروں سے مستفید ہو سکیں۔

نوٹ:      میں اس مضمون کی اصلاح کے لئے  مسلم حسنی  (ٹورونٹو)  کا شکر گزار ہوں۔

3 Comments