بہت سارے لوگوں کو عالمی ضمیر پر حیرت و افسوس ہے۔ حیرت انہیں اس بات پرہے کہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و تشدد پر آخر عالمی ضمیر خاموش کیوں ہے؟ کچھ لوگوں کو اس پر دکھ وصدمہ ہے۔ کچھ لوگ اس عالمی ضمیر کی مکمل خاموشی پر مایوس ہیں۔ کچھ مگر رجائیت پسند ہیں، اور عالمی ضمیر سے بڑی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔ ان کے خیال میں عالمی ضمیر کشمیر کے سوال پر سویا ہوا ہے، جسے جگانے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ وہ اسے جگانے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کشمیر کے اندر اور باہر کشمیر یوںکے حق میں مظاہرے، یاداشتیں اور جلسے جلوس اسی کوشش کی ایک کڑی ہیں۔
یہ عالمی ضمیر ہے کیا؟ اور اس کی اگر کوئی مادی شکل ہے تو وہ کیا ہے؟ اپنی اپنی اخلاقیات اور اصولوں کی روشنی میں وہ انسانی جذبات و خیالات ، جو دنیا کے ہر انسان کے دل میں دنیا کے اندر رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں پائے جاتے ہیں، اس کو عالمی ضمیر کہا جاسکتاہے۔ دنیا میں جو کوئی بھی اچھا یا برا واقعہ ہوتا ہے، اس کے حق یا مخالفت میں دنیا بھر میں رد عمل ہوتا ہے۔ اس رد عمل میں حکومتیں اور سول سوسائٹی کے ممتاز افراد شامل ہوتے ہیں۔ اچھے واقعے کی تعریف و توصیف کی جاتی ہےاور برے واقعات کی مذمت ہوتی ہے۔
اس طرح عالمی برادری اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتی ہے۔ اس کو آپ عالمی رائے عامہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس رائے عامہ کی صورت گری آزادانہ یا بے ساختہ طریقے سے نہیں ہوتی۔ عا لمی رائے کو ایک منظم و مربوط طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے، اس کی صورت گری میں عالمی طاقت ور قوتیںاپناکردار دا کرتی ہیں ۔ یہ قوتیںعالمی رائے عامہ کے رخ کا تعین کرتی ہیں۔ یہ قوتیںکسی بڑے واقعے کو اپنی مرضی اور منشا کارخ دے سکتی ہیں۔ وہ یہ بھی طے کرتی ہیں کہ کسی واقعے پر کیا اور کتنا رد عمل آناچاہیے۔ اس پر چیخ و پکار ہونی چاہیے یا اسے نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ یا پھر اس کے خلاف خاموشی کی سازش ہونی چاہیے۔
عالمی ضمیر کو قابو میں رکھنے کا یہ فریضہ عالمی اسٹبلشمنٹ سر انجام دیتی ہے۔ عالمی اسٹبلشمنٹ کون ہے؟ عالمی اسٹبلشمنٹ دنیا کے طاقتور ممالک کی حکومتوں اور اشرافیہ کے طاقتور طبقات پر مشتمل ہے۔ بسا اوقات اس میں ان ممالک کی حکومت، فوج، پالیسی ساز ادارے ،ذرائع ابلاغ اور اشرافیہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا کے ہر واقعے کو اپنے مخصوص نظریات اورمفادات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اور دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس واقعے پر کیا رد عمل دیا جائے، کیا نتائج اخذ کیے جائیں۔ دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک کسی نہ کسی طریقے سے اس انٹر نیشنل اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ البتہ اس کا کردار اور حصہ اس کی اہمیت اور اوقات کے مطابق ہوتا ہے۔ مگرکچھ ایسے با اثر اور طاقت ور ممالک ہیں، جو اس میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
آج اگر دنیا کے پہلے دس بااثر ممالک کی فہرست بنائی جائے تو اس میں امریکہ، روس ، چین،، جرمنی، فرانس ، انگلستان، جاپان، کوریا، سعودی عربیہ اور متحدہ عرب امارات وغیرہ آتے ہیں۔ انٹرنیشنل اسٹبلشمنٹ میں ان بااثر ممالک کا نمایاں حصہ ہے۔ اسی طرح اگر اس فہرست کو تھوڑاوروسیع کیا جائے اور بیس ممالک کی فہرست بنائی جائے تو اس میں بھارت بھی آ جاتاہے۔ اگر اس فہرست میں پچیس ممالک شامل کیے جائیں تو ان میں پاکستان اور ایران اور ترکی جیسے ممالک بھی آجاتے ہیں۔ گویا فہرست کے پہلے پچیس ممالک کی حکومت اور رائے عامہ کو کشمیر کے معاملے میںعالمی ضمیر مانا جا سکتا ہے۔
اس عالمی ضمیرتک پاکستان اور بھارت دونوں کو مکمل رسائی ہے۔ یہ دونوں اپنے اپنے طریقے سے عالمی ضمیر پر اثر اندوز ہو سکتے ہیں۔ مگر عالمی ضمیرکو جھنجوڑنے کی مہم پر نکلنے سے پہلے یہ دیکھ لیا جانا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی حکومتوں اور ان کی اشرافیہ کا موقف کیاہے۔ کیونکہ کشمیریوں کے علاوہ یہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق ہیں، اور ان کی رائے اس سارے قضیے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اس مسئلے پرپاکستان کی حکومت اور اشرافیہ کی رائے تقریبا ایک ہی ہے۔
گزشتہ ستر سال سے پاکستان کا سرکاری موقف یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔ اس کا اس بات پر اصرار ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوم متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر سے فوجیں نکالی جائیں۔ اور آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ اس کی عملی صورت گری کے لیے پاکستان کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر یہ مسئلہ اجاگر ہونا ضروری ہے، تاکہ عالمی رائے عامہ اور طاقت ور حکومتوں کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
دوسری طرف ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اب اگر کوئی مسئلہ باقی ہے، تو وہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے مستقبل کا ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے تمام تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے چاہیے۔ مگر پاکستان جب مذاکرات کی بات کرتا ہے تو بھارت کی شرط یہ ہوتی ہے کے پہلے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے، جس کے بغیر مذاکرات نہیں ہو سکتے ۔ اس طرح دونوں ملکوں کا ایک لگا بندھا موقف ہے۔ ایک طے شدہ پالیسی ہے۔ اور دونوں ممالک اپنے اپنے موقف پر کسی قسم کی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جہاں تک عالمی رائے عامہ کاتعلق ہے تو اسے دو حصوں میں تقسیم کر کہ دیکھنا چاہیے۔ ایک طرف عالمی سول سو سائٹی ہے، جو اس مسئلے سے بہت حد تک ناوقف اور لا تعلق ہے۔ کچھ لوگوں کو تو اس تنازعے کے بارے میں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے۔ اور اگر کچھ لوگوں کو علم ہے بھی تو وہ بہت ہی سطحی اور روایتی تعصبات پر مبنی ہے۔ وہ اس مسئلے کو کشمیریوں کی قومی آزادی یا انسانی حقوق کا مسئلہ سمجھنے کے بجائے ایک مذہبی تنازعہ سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اس پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غور کرنے اور واضح رائے دینے سے گریزپا ہیں۔ اسی طرح بیشتر ممالک کی حکومتیں بھی پوری طرح اس مسئلے سے آگا ہ نہیں ہیں ۔ ان ممالک کے وزارت خارجہ کے وہ اہل کار جو جنوبی ایشیا کے معاملات دیکھتے ہیں، وہ بھی بمشکل اس مسئلے کے بارے میں تھوڑ ی بہت معلومات رکھتے ہیں۔
ماضی میںطاقت ور ممالک کی حکومتیں عموما اس باب میں دو طرفہ مذاکرات مشورہ دہراتی رہی ہیں۔ ان کا خیال رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو یہ تنازعہ باہمی گفت و شنید سے ہی حل کرنا چاہیے۔ ان میں سے کچھ نے ماضی میں ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے ۔ جسے قبول نہیں کیا گیا۔ان حالات میں ایک قابل عمل راستہ انسانی ہمدردی کی بنیادپرعالمی رائے عامہ کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے مگر ایسا کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس مسئلے کا عام ڈگر سے ہٹ کر ایک غیر روایتی اور نیا حل تلاش کیا جائے۔
ایک ایسا حل جس میں کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست مقصود نہ ہو۔ بلکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کے مصائب و الم کے خاتمے کی کوئی صورت نکل سکے۔ اس طرح کے کئی حل ممکن اور موجود ہیں۔ ماضی میں ایسے حل سامنے آتے رہے ہیں۔ مشرف واجپائی مذاکرات کے دوران نئے اور غیر روایتی حل زیر غور رہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک اس مسئلے کے حل کے کافی قریب پہنچ چکے تھے۔
اور یہ ایک ایسے وقت میں ہوا تھا ، جب ایک طرف پاکستان کا حکمران ملک کی طاقت ور فوج کا طاقت ورسربراہ تھا ، اور دوسری طرف ایک مقبول ہندو قوم پرست رہنما تھا، جو اپنے ملک کے انتہا پسندوں ، اعتدال پسندوںاور عا م لوگوںسے اپنا فیصلہ منوا نے کی صلاحیت رکھتاتھا۔ مگروہ وقت گزر گیا۔ اوراس باب میں آج ہم ایک بار پھر بند گلی میں کھڑے ہیں۔ آج کوئی نیا زاویہ ہی ہمیں اس بھنور سے نکال سکتاہے ۔ یہ مسئلہ آج ایک نئی سوچ اور نئی پالیسی کا متقاضی ہے۔