اگر ایک طرف افغان امن مذاکرات کیلئے جاری سفارتی کوششوں میں تیزی سے پرُ امیدی بڑھ گئی ہے تو دوسری طرف ناامیدی کی علامات بھی ہیں۔ مسئلے کے فریقین افغان حکومت اور پاکستان ایک طرف جبکہ امریکہ اور پاکستان دوسری طرف اسٹک اور کیرٹ کا کھیل بھی آپس میں کھیل رہےہیں۔ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے سفارتی سرگرمیوں میں تیزی سے اگلے راؤنڈ میں کسی پیش رفت یعنی طالبان اور افغان سرکاری وفد کی برائے راست مذاکرات اور فائر بندی کا امکان بڑھ رہا ہے ۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چار ملکی دورے پر ہیں اور باتوں کے علاوہ وہ افغانستان ، روس ، چین اور ایران کو افغان امن مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کے بارے میں اعتماد میں لیں گے ۔
اگر دارالحکومت کابل میں حالیہ دھماکہ طالبان کی جانب سے اپنی طاقت کا مظاہرہ تھا تو دوسری طرف دو طالبان مخالف اور پاکستان کے بارے میں مخاصمانہ جذبات رکھنے والی شخصیات امر اللہ صالح اور اسد اللہ خالد دونوں اتفاق سے افغان انٹیلی جنس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں بحثیت افغان وزیرِداخلہ اور وزیر دفاع کے تقرری افغان حکومت کی جانب سے بڑا اھم سگنل ہے جو افغان حکومت کی طالبان کی سرکاری وفد سے ملاقات سے انکار کے خلاف فوری ردعمل بھی تھا ۔
پہلی دفعہ ابوظہبی مذاکرات میں افغان طالبان کی اعلی ترین کمانڈروں کی شرکت اگر ایک طرف ایک خوش آئند بات ہے مگر دوسری طرف افغان سرکاری وفد سے طالبان کے مذاکرات سے انکار نے ناامیدی پیدا کی ۔پہلی دفعہ لگتا یہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز اور افغان معاملات چلانے والے اداروں نے طالبان پر اپنا اثرورسوخ کسی حد تک استعمال کیا ہے اور انہیں امریکہ سے مذاکرات پر آمادہ کیا ہے ۔ امریکہ اور طالبان کی مذاکرات میں سعودی عرب ، متحدہ امارت اور پاکستان کے سفارتی نمائندوں کی شرکت بہت اہم ہے کیونکہ طالبان حکومت کو ان تین ممالک نے رسمی طور پر تسلیم کیا تھا اور تینوں کا طالبان پر اب بھی کسی حد تک اثرورسوخ ہے ۔ اگر تینوں خلوص نیت سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے ۔
اگرچہ قیدیوں کے تبادلے ، طالبان کمانڈروں پر عائد سفری پابندیاں ہٹانے ، مخلوط یا عبوری حکومت کا قیام وغیرہ مسائل پر بھی بات چیت ہو رہی ہے مگر افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے ٹائم ٹیبل کا اعلان، جنگ بندی اور طالبان اور افغان حکومت کی برائے راست بات چیت وہ اہم نکات ہیں جس پر اتفاق رائے نہیں ہے اور فریقین کو مذاکرات کو کامیابی سے ھمکنار کرنے کیلئے اس سلسلے میں کسی نتیجے پر پہنچنا اور اتفاق رائے پیدا کرنا ہے ۔ خدشہ یہ ہے کہ ماضی کی طرح دوبارہ مختلف حلقے بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر طالبان کے فیصلوں پر اثراندازہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
جس طرح اس حقیقت سے انکار نہیں کہ طالبان کے بغیر کوئی بھی امن مذاکرات کامیاب نہیں ہونگے اس طرح افغان حکومت کے بغیر بھی مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ افغان حکومت اور طالبان مسئلے کے دو اھم داخلی فریق ہیں ۔ طالبان کو جلد یا بدیر یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی ۔ افغان حکومت کی عدم شرکت علاقائی اور عالمی قوتوں کے مسلے کے حل کیلئے بین الافغانی مذاکرات کے بیانیے کی نفی ہے ۔ اسلئے مذاکرات کی کامیابی کیلئے دونوں افغان فریقوں یعنی حکومت اور مسلح مخالفین کو مذاکرات کی میز پر مل بیٹھنا ہوگا۔
امریکہ برائے راست اور بعض دوست ممالک خصوصا سعودی عرب اور متحدہ امارات کے ذریعے پاکستان اور طالبان پر امن مذاکرات اور افغان حکومت سے بات چیت کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ سعودی عرب ترکی میں سعودی سفارتخانے میں سعودی صحافی خالد خشوگی کی ہلاکت کے بعد شدید سفارتی مشکلات کا شکار ہے اور اس مسئلے پر ٹرمپ انتظامیہ کی کھلم کھلا یا دبے الفاظ میں حمایت سے سعودی عرب پر سفارتی دباؤ کم ہونے میں مدد ملی ہے۔ سعودی شاہی خاندان کی امریکہ نوازی اور فرمانبرداری میں اضافہ ایک قدرتی امر ہے ۔
سعودی عرب کو متحرک کرنے کیلئے افغان امن مذاکرات کے حوالے سے ماضی قریب تک سر گرم عمل دو اھم ممالک قطر اور ترکی پس منظر میں چلے گئے ہیں ۔ جہاں تک قطر کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اس کی ناراضگی کی اطلاعات بھی ہیں ۔ ان دونوں ممالک کے علاوہ افغانستان کی تعمیر نو اور آبادکاری کیلئے سب سے زیادہ امداد دینا والے ملک انڈیا کو بھی مذاکرات کے حوالے سے آن بورڈ کرنے کی ضرورت ہے ۔ افغان مسئلے کی دیرپا اور مستقل حل کیلئے تمام علاقائی اور عالمی قوتوں کو اعتماد میں لینے اور وسیع افہام و تفاہم کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی علاقائی قوت کو باہر رکھنے یا اعتماد میں نہ لینے کے نقصانات زیادہ جبکہ فائدہ کم ہوگا۔
ماضی قریب کے برعکس جب امریکہ نے افغان مسلے کے حل کیلئے روس اور ایران کی کوششوں کو شک کی نظر سے دیکھا اب امریکہ روس ، ایران اور چین سے مثبت کردار کی توقع کررہا ہے۔ اور زلمے خلیل زاد کی حالیہ سفارتی کوششوں کے بعد امریکہ کی رویئے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے ۔ دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ کی شام سے فوج انخلاء کے اعلان کے بعد امریکہ کی روس اور ایران کے ساتھ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے تعاون کے امکانات بڑھ گئے ہیں ۔ روس، چین اور ایران اپنے اپنے داخلی مسائل اور سٹرٹیجک مفادت کی وجہ سےافغان امن مذاکرات کو کامیابی سے ھمکنار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایرانی اعلی حکام کی افغان طالبان سے رابطے اور اس کے بارے میں افغان حکومت کو اعتماد میں لینے کی کوشش خیرسگالی کا اظہار ہے ۔
پاکستان کی عسکریت نواز پالیسیوں کی اندرون ملک اور بیرون ملک مخالفت بڑھ گئی ہے ۔ اندرون ملک تقریبا تمام مین سٹریم سیاسی جماعتیں ملک میں دہشت گردی کے خاتمے اور علاقائی تعاون و ترقی اور امن کیلئے داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی اور قبلہ درست کرنے کی حامی ہیں ۔ناعاقبت اندیش داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے جو سویلین کی بجائے وردی پوش اسٹبلشمنٹ بناتی اور چلاتی ہے ملک تقریباً تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے ۔ بہت سے آزاد اور غیر جانبدار تجزیہ نگار ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے تناظر میں افغان طالبان کو اب ملک کیلئے قیمتی اثاثے کی بجائے ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔
مگر پالیسی ساز اپنی غلط پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانے سے اجتناب برت رہے ہیں اور کاسمیٹک اقدامات کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ اختلاف رائے کو کنٹرول اور دبانے کیلئے بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیاں سلب کرنے اور سیاست میں ننگی مداخلت کی طرف مائل ہے۔ جس سے حالات مزید خراب اور معاملات ریاست کی کنٹرول سے باہر ہور ہے ہیں جوں جوں حالت پر ریاست کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے تو ساتھ ہی اظہار رائے اور تقریر اور تحریر کی آزادی سلب کرنے کی کوششوں میں بھی تیزی آرہی ہے ۔ عوامی غم وغصے کا اظہار ریاستی اداروں اور شخصیات کے خلاف نعرہ بازیوں میں اضافے سے بھی ہورہا ہے ۔ پولیٹکل انجیرنگ نے کئی ریاستی اداروں کی ساکھ کو داؤ پر لگادیا ہے اور عوام اور اداروں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
یہ پاکستان کی عسکریت نواز پالیسیاں ہیں جس پر دوست اور دشمن دونوں ممالک کھلم کھلا یا دبے الفاظ میں تنقید کررہے ہیں ۔ پاکستان کی سفارتی تنہائی کی ایک اھم وجہ یہ عسکریت نواز پالیسیاں بھی ہیں ۔ ماضی قریب میں بہت سے اھم علاقائی اور بین القوامی فورمز پر جب علاقے میں دہشت گردی کے حوالے سے بات ہوتی تھی تو پاکستان کے قریب ترین دوست پاکستانی موقف کی بجائے دنیا کے ساتھ کھڑی نظر آتی تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز یا تو خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہی اور یا اپنی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کا شکار ۔
ٹرمپ انتظامیہ کی افغان مسلے کے حوالے سے سخت پالیسی جس میں سفارتی دباؤ بڑھانے کے ساتھ اقتصادی اور فوجی امداد کی بندش بھی شامل ہے نے معاشی طور پر بدحال پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے ۔ پاکستان کی سفارتی تنہائی بڑھی ہے اور امریکہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کی جانب سے بھی تعلقات میں سرد مہری کا اظہار ہورہا ہے ۔ اسٹبلشمنٹ کی بلند بانگ دعوے ایک طرف مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی فوجی اور اقتصادی امداد کے بغیر پاکستان کی معاشی اور فوجی مشکلات بڑھ رہی ہے ۔ ساٹھ سالوں میں پروان چڑھنے والی امریکی غلامی کی ذھینت سے بھی پالیسی سازوں کا چھٹکارا پانا مشکل ہے ۔
آیا پاکستان کی عسکریت نواز پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائی جارہی ہے کہ نہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے مگر طالبان نواز مولانا سمیع الحق کی پرسرار حالات میں ھلاکت ، گالیاں بکنے اور دشنام درازی کیلئےمشہور مولانا خادم رضوی کی گرفتاری اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا عسکریت نواز پالیسی میں تبدیلی کے اشارے ، طالبان پراجیکٹ کو وائینڈ اپ اور اس کو اھم مغربی دارلحکومتوں میں مارکیٹ کرنے کی کوشش ہے ۔ اگرچہ خادم رضوی کو فوجی سربراہ کے خلاف بیان پر گرفتار کیا گیا ہے ۔ مگر توہین رسالت کے مسلے کے پس منظر میں اور بیرونی حساسیت کے پیش نظر مغربی ممالک کی خوشنودی حاصل کرنے کا یہ ایک سہنری موقع بھی تھا ۔
افغان امن مذاکرات کی اگلے راؤنڈ سے اندازہ لگ جائیگا کہ آیا فریقین خاص کر طالبان امن کے قیام کیلئے واقعی مخلص بھی ہیں کہ وہ تاخیری حربوں سے کام لے رہے ہیں اور فوجی دباؤ کو بڑھانے کیلئے مذید وقت لینا چاہتے ہیں ۔ آیا پاکستان کی عسکریت نواز پالیسیوں میں واقعی تبدیلی آرہی ہے یا ماضی کی طرح دنیا کی آنکہوں میں دہول جونکنے کی ناکام کوشش ہورہی ہے ۔ اب تاخیری حربوں اور دہول جونکنے کا وقت گزر چکا ہے اب دنیا ٹھوس نتائج دیکھنا چاہتی ہے ۔
چاہے کوئی اس حقیقت کو مانے یا نہیں کہ دنیا اب بھی پاکستان کو طالبان کا سب سے بڑا حمایتی سمجھتی ہے اور اگر پاکستان خلوص نیت سے چاہے تو افغان امن مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ عالمی رائے عامہ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں اس کے ذمہ دارطالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی ٹھہرایا جائیگا ۔