ٓٓمعروف اداکارہ شبانہ اعظمی کے شوہر اور ہندوستانی فلموں کے رائٹر جاوید اختر صاحب بہت عمدہ شاعر اورکہانی نویس ہیں، آج کل دانشوری بھی فرماتے ہیں، اکثر لسّانیات پر انکے انٹرویوز نظر سے گزرتےرہتے ہیں۔ موصوف چونکہ جوشِ خطابت میں تاریخ ۔ سیاسیات اور معاشیات سے رو گردانی کرجاتے ہیں، لہذا اکثر ان کے انٹرویوز میں سماجی پس منظر کا جھول نظر آتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل دیئے گئےجاوید اختر کے ایک انٹرویو میں ، جس میں انہوں نے مادری زبانوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے، اردو کے ارتقاء، اردو کی ترویج اور اردو داں طبقے پر منفی تنقید کی ہے۔ کچھ پنجابی دانشوروں نے خوشی میں لڈُی پائی ہوئی ہے،اور دھمال ڈالا ہوا ہے۔ کچھ دانشوروں نے تو کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، فیض احمد فیض، سعادت حسین منٹو، علّامہ اقبال پر باقاعدہ لعن و طعن اور غم و غصّہ کا اظہار کیا ہے کہ ان کی وجہ سے پنجابیوں کی ماں بولی نظر انداز ہوئی ہے۔
انڈیا میں آج بھی 136 زبانیں سرکاری سطح پر تسلیم شدہ ہیں اور مقامی طور پر رائج ہیں، مگر رابطے کی زبان وہی ہندوستانی زبان ہے، جو تقسیم سے پہلے تھی۔ تقسیم کے بعد یہی زبان انڈیا میں ہندی اور پاکستان میں اردو کہلائی۔ مذہب کے نام پر کھیلے جانے والی خونی کھیل نے زبانوں کا بھی مذہب مقرّر کردیا ۔ ہندوئوں نے ہندوستانی زبان میں سنسکرت کے الفاظ استعمال کئے اور دیو ناگری رسم الخط اختیار کیا، مسلمانوں نے ہندوستانی (اردو)زبان میں عربی و فارسی کے الفاظ شامل کئے اور نستعلیق رسم الخط اختیار کیا۔
آج بھی پورے برِّ صغیر کی ایک ہی زبان ہے اور یہ وہ زبان ہے جسے ہندوستانی زبان کہا جاتا ہے۔ سرحد کے دونوں طرف عوامی رابطے کے لئے ایک ہی زبان بولی جاتی ہے جو لکھنے میں فرق ہے، مگر بولنے میں ایک ہی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو دونوں ممالک میں بننے والی کمرشل فلموں کی مثال سامنے رکھ لیں، ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی فلمیں ایک ہی زبان میں بنتی ہیں۔ انڈیا میں بننے والی فلم کو ہندی فلم اور اور پاکستان میں بننے والی فلم کو اردو فلم کہا جاتا ہے۔
تقسیم سے پہلے پاکستانی پنجاب کے پنجابی، صوبہ سرحد اور افغانستان کے پٹھان فنکار، بمبئی جاکر پنجابی اور پشتو فلموں میں کام نہیں کرتے تھے، سب ہندوستانی بھاشا بولتے تھےاور ہندوستانی فلموں میں کام کرتے تھے، محمّد رفیع، نورجہاں،ہندوستانی فلموں کے لئے گاتے تھے، اور شہرت کماتے تھے۔ بلراج ساہنی، دیو آنند،راج کپور، دلیپ کمار پنجابی اور پشتو فلموں کے اداکار نہیں تھے،گلزار نے پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ، اور اسٹوری لکھ کر شہرت نہیں کمائی ، نرگس اور مینا کماری راولپنڈی میں پیدا ہو کر بھی انڈین سنیما کی سپر اسٹارز تھیں۔ مینا کماری تو شاعری بھی اردو میں ہی کرتی تھیں۔ کرشن چندر، غلام عبّاس، منٹو ، فیض، اقبال نے مادری زبان پنجابی ہوتے ہوئے بھی پنجابی شاعری اور ادب سے نام نہیں کمایا۔
پنجابی زبان پر ظلم کا رونا رونے والے یہ دانشور اپنے گھروں میں اپنے بچّوں سے اردو میں بات کرتے ہیں، اور انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، کسی پنجابی دانشور نے شاعری کے علاوہ پنجابی میں کوئی علم تخلیق ہی نہیں کیا۔ جب کہ شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علم نہیں بلکہ جذبات اور احساسات کی ترجمانی کا اظہاریہ ہے۔ پنجاب میں آج 71 سال گزرنے کے باوجود بچّوں کو پرائمری اسکولوں میں مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاتی۔ نہ ہی بچّوں کے لئے پنجابی میں ادب تخلیق کیا جاتا ہے، نہ ہی سائنس اور ریاضی کے بنیادی اصولوں کو پنجابی زبان میں پڑھانے کی کوئی عملی کوشش کی گئی۔
سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ آج تک پاکستانی پنجاب میں پنجابی زبان میں اسکرپٹ لکھنے کے لئے پنجابی کے حروف تہجّی کا کوئی متّفقہ قاعدہ ترتیب دیا گیا ہے۔ نہ ہی فونکِس کے سمبلز طے کئے جاسکے ہیں۔ پنجابی بھی اردو میں لکھی جاتی ہے اور گالیاں بھی اردو کو ہی پڑتی ہیں۔ معذرت کے ساتھ ان میں سے کچھ دانشور جب دانشوری کے نشے میں زیادہ ٹُن ہوجاتے ہیں اور پنجابیت زیادہ سر پر چڑھ جاتی ہے، تو بانیاں پاکستان اور اردو اسپیکنگ پر اپنا غصّہ نکالتے ہیں ۔ مگر نہ ہی پنجابی زبان میں تعلیم دینے کے لئے کو ئی عملی قدم اٹھاتے ہیں نہ ہی اپنی مادری زبان میں علم تخلیق کرتے ہیں، نشہ اتر جاتا ہے تو چائے پی کر اردو اور انگریزی کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اور رات کو پھر وہی منافقت شروع کردیتے ہیں۔
ویسے بھی لسّانیت اور قومیت، محروم معاشروں کا المیہ ہے۔ آپ نے کسی خوشحال معاشرے میں عوام کو لسّانیت اور قومیت کی آگ میں جلتے نہیں دیکھا ہوگا، معاشی خوشحالی ، سماجی ترقّی کا انجن ہے، سماجی ترقّی ہی انسانی زندگی میں خوشی اور راحت لاتی ہے اور معاشرہ پر امن اور مگن رہتا ہے۔ معاشی خوشحالی ہوگی تو سماجی ترقّی ہوگی، ورنہ محرومیت کی کوکھ سے نسل پرستی ہی جنم لے گی۔
مشکل یہ ہے کہ معاشی ترقّی حاصل کرنے کے لئے سماجی انصاف کا قیام اور کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے، جو کہ ریاست کی بنیادی زمّہ داری ہے، چونکہ سرِ دست ریاست کو ففتھ جنریشن وار کا سامنا ہے اور ریاست پچھلے 71 سالوں سے جہاد کشمیر و افغانستان میں مصروف ہے، لہزا فی الحال ریاست کا ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، جس میں سماجی انصاف کے قیام پر توجّہ دی جائے، کرپشن ختم کی جائے، معاشی ترقّی کے حصول کے لئے انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ اور توانائی کی پیداوار کے منصوبوں پر کام کیا جائے،پیداوار بڑھائی جائے، برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔
لہذا ان نسل پرست دانشوروں کو اپنی دانشوری بھگارنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، تاکہ قوم خرافات میں الجھی رہے اور گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر اختصار کے لئے یہی کہنا چاہوں گا کہ زبان وہی چلتی ہے، جس میں معیشت چلتی ہے، پنجابی اور اردو کی مثال، دریا اور سمندر کی ہے، دریا سمندر میں گرتا ہے، سمندر آج تک کسی دریا میں نہیں گرا۔ اگر اس بات کو ہمارے نسل پرست دانشور سمجھ لیں تو پاکستان میں زبانوں اور قومیت کا مسئلہ اتنا دردناک نہیں ہے کہ اس کے لئےلسانیت اور نسلی منافرت کو ہوا دی جائے۔
One Comment