منیر سامی
ہم گزشتہ سال کئی سال سے کینیڈا میں کئی ایسے مسلمان خاندانوں کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں جو کینیڈا میں بیک وقت ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے ہیں ، یعنی ایک ہی وقت میں ان کی دو یا تین بیویاں ہیں۔ ہمیں حیرانی ہوتی تھی کہ کینیڈا میں جہاں قانوناً بیک وقت کئی شادیاں یا Polygamy خلافِ قانون ہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ۔ بعض لوگوں نے ایسی شادیاں کینیڈا سے باہر کیں اور پھر اپنی بیویوں کو مختلف بہانوں سے یہاں لانے کی کوشش کی۔ کبھی دوسری بیوی کو نوکرانی کے ویزا پر، یا کبھی کسی اور بہانے سے۔ اتفاق سے ان میں کئی پاکستانی کاروباری افراد بھی شامل ہیں۔
ہمیں یہ بھی حیرانی تھی کی کہ کینیڈا کے قانون کے خلاف یہ معاملہ اب تک منظرِ عام پر کیوں نہیں آیا۔ لیکن آج کینیڈا کے ریڈیو سی۔بی ۔سی CBC نے ایک مکمل تحقیقی رپورٹ جاری کردی جس میں اس معاملہ کے بارے میں حیران کُن انکشافات بھی کیئ۔ جو اس طرح سے تھے:
۔ کینیڈا کے کئی مسلم امام مسلمانوں کے ایک ہی وقت میں کئی نکاح پڑھاتے ہیں۔ اور قانوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکار کو اطلاع نہیں دیتے۔
۔ شادیوں کے بندو بست کرنے والے کئی مسلمان ادار ے متعدد شادیوں کے اشتہار بھی دیتے ہیں جن میں بے شمار ایسی مسلمان خواتین کے کوائف شامل ہوتے ہیں۔ جو کسی مسلمان کی پہلی بیوی ہوتے ہوئے بھی اس سے دوسری شادی کرنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔
۔ اس رپورٹ میں ایک مسلمان خاتون نے یہ بھی کہا کہ انہیں سوتن بننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔ بعض مسلمان خواتین دوسری شادی کرنے والے مردوں کو ان اماموں کے پتے بھی بتاتی ہیں جو ایسے نکاح کرنے میں مدد گار ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے ایک معروف امام حامد سلیمیؔ کینیڈا میں اس طرح کی شادیوں کے خلاف ہیں، اور اس طرح کے نکاح پڑھانے میں مدد نہیں کرتے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ یہ معاملہ کینیڈا میں غیر قانونی ہے، سو جسے ایسا کرنا ہو تو وہ کینیڈا کی شہریت ترک کرکے کیسی ایسے ملک چلا جائے جہاں یہ معاملہ قانونی ہو۔
ان کے برخلاف یہاں کی مسجد صلاح الدین کے ایک نہایت شدت پرست امام علی ہندیؔ نہ صرف اس طرح کے نکاح پڑھاتے ہیں بلکہ متعدد شادیوں کے خلاف کینیڈا کے قوانین کو کُوڑا کرکٹ ا گردانتے ہیں۔ جب ان سے کہا گیا کہ آپ قانون شکنی کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جس کا جی چاہے ان پر مقدمہ کردے۔ اور یہ کہ وہ اس معاملے میں کینیڈا کی سپریم کورٹ تک جانے پر راضی ہیں۔
اس معاملے میں نہایت حیران کُن اور باعثِ تشویش رویہ خود کینیڈا کی بعض مسلمان خواتین کا ہے جو یہاں کثیر الازواجی تعلق میں رہنے کے لیئے ہنسی خوشی راضی ہیں ۔ ان میں سے اکثر اس کو صالح عمل جانتی ہیں جس کی ان کے مذہب اور قرآن میں اجازت ہے۔ ہم نے اس بات پر اس وقت تک یقین نہیں کیا جب تک ہم نے خود شادیوں کا انتظام کروانے والی ویب سائٹ مسلمہ ڈاٹ کوم https://www.muslima.com/ کو نہیں دیکھ لیا جہاں مسلمان خواتین کی ایک خاصی تعداد اس بات راضی نظر آئی۔ آپ خود بھی اس رابطے پر جا کر دیکھ سکتے ہیں: https://tinyurl.com/ya49s6go
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کینیڈا میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا غیر قانونی ہے تو اس پر سزایئں کیوں نہیں ملتیں۔ یہ ایک جائز سوال ہے۔ گو کینیڈا میں متعدد شادیوں کے خلاف قانون کم از کم سوا سو سال پرانا ہے لیکن اب تک زیادہ سے زیادہ چار پانچ لوگوں پر اس ضمن میں مقدمہ چلا ہے اور بہت ہی کم سزایئں دی گئی ہیں۔ ان میں بھی ایک مسیحی فرقہ یعنی مورمن Mormon فرقہ کے اختلافی گروہ کے لوگ شامل تھے۔ ان میں دو ایسے افراد تھے جن کی انتیس بیویاں اور ایک سو ساٹھ بچے تھے۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں صرف گھر میں نظر بند کرنے کی سزا ملی ۔ جب کے اصل سزا کم از کم پانچ سال تھی۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ مورمن فرقہ نے اب سے سو سال پہلے متعدد ازواج کی اجازت سے سے کنارہ کشی کر لی تھی۔
ہمیں اس معاملے میں امام ہندی ؔ کا یہ چیلنج بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ تک جانے کو تیا ر ہیں۔ لیکن شاید یہاں کی ایک حالیہ عدالتی نظیر ان کے خلاف ہے۔ جس میں یہاں کے صوبہ برٹش کولمبیا کی سپریم کورٹ نے کینیڈا کے متعدد ازواج کے خلاف قوانین کو بر حق اور آئین کے مطابق قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ ساڑھے تین سو صفحات پر محیط ہے۔ اب تک اس فیصلے کے خلاف کینیڈا کی سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی گئی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ کینیڈا کے بعض مسلمان یہاں کی مذہبی آزادیوں کا استحصال کرتے ہوئے خلاف قانون زندگی بسر کرتے رہیں گے۔
کینیڈا کے مسلمانوں کو ان عوامل پر غور کرنا چاہیے جن کے تحت کینیڈا کی مسلم خواتین کثیر الازواجی تعلقات اپنانے پر تیا ر ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کینیڈا میں مسلمانوں کی ایک خاصی تعدا بنیاد پرستی اور مذہبی شدت پرستی پر مائل ہے۔ یہ کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔ کینیڈ ا کے معتدل مزاج مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس قسم کے معاملات کے خلاف جدو جہد کرتے رہیں۔ آپ اس معاملہ پر CBC کی رپورٹ اس لنک پر سن سکتے ہیں: