ساہیوال میں جو کچھ ہوا وہ صرف اور صرف ریاستی دہشت گردی ہے جو پورے ملک میں جاری ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ یہ واقعہ پنجاب میں ہوا ہے لہذا میڈیا میں چرچا زیادہ ہے۔ زندہ بچ جانے والے بچے نے کہا کہ پاپا نے پولیس والوں کو کہا کہ پیسے لے لو مگر گولی نہ مارو۔پنجاب کے وزیر قانون کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن سی ٹی ڈی اور آئی ایس آئی کی مشترکہ کاروائی تھی۔
اس کے ساتھ ہی وزیرستان کے علاقے خیسور میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ منظر عام پر آیا ہے ۔اس واقعے کی تفصیلات ایک بچے کی ویڈیو کی شکل میں سامنے آئی ہیں جس میں بچے کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز والے اس کے بھائی اور والد کو دو ماہ پہلے اٹھا کر لے آئے اور پھر وقتا فوقتا ان کے گھر آکر اس کی ماں اور بہن سے بدتمیز ی کرتے ہیں ۔بچہ کہہ رہا ہے کہ آپ بے شک میرے والد کو قید میں رکھیں مگر روزانہ گھر آکر ماں بہن سے بدتمیزی تو نہ کریں۔
پختون سیاسی کارکن ایمل خٹک لکھتے ہیں کہ سوات سے وزیرستان تک ہزاروں مظلوموں کے ساتھ جنسی زیادتیوں ، ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے اور بلیک میلنگ کی پوشیدہ کہانیوں کا ایک ٹریلر ہے جس پر پراسراریت اور مجبوریوں کے دبیز پردے پڑے ہیں ۔مظلوم عوام ریاستی اداروں کے ڈر اور خوف ، ان کے لواحقین شرم اور بدنامی کی خوف سے اور جھوٹے کلچر کے رکھوالے بے غیرتی کے طعنوں سے بچنے کیلئے ایسے واقعات کو چھپاتے رہے ہیں۔ بلکہ بعض کیسوں میں ایسے واقعات سے انکار کرکے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ظالموں کا ساتھ دیتے رہے ۔
اگر ساہیوال میں یہ دہشت گردی پولیس اور آئی ایس آئی کی مشترکہ کاروائی ہے تو شمالی وزیر ستان میں یہی کاروائیاں سیکیورٹی فورسز کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی فورسز بنگال کے بعد وہی کھیل وزیرستان میں کھیل رہی ہیں؟ ریاستی اداروں کی دہشت گردی پاکستان میں معمول ہے، پنجاب میں ماورائے عدالت قتل کی ابتدا وزیر اعلی شہبا زشریف نے کی تھی جب حوالات میں قید ملزمان پر مقدمہ چلانے کی بجائے انہیں جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیا جاتا تھا۔
پنجاب پولیس میں یہ کردار عابد باکسر نے ادا کیا تھا جو ابھی پرتعیش زندگی گذار رہا ہے۔کراچی میں چوہدری اسلم اور پھر ایس ایس پی رائو انوار بھی ریاستی اداروں کی سرپرستی میں بے گناہ افراد کے قتل میں ملوث ہیں، اب تورائو انوار نے عدالت میں آئی ایس آئی کی تعریفی سند بھی پیش کر دی ہے۔
اسی طرح چند سال پہلے خروٹ آباد کوئٹہ میں بے گناہ افراد کو ہلاک کیا گیا، کراچی میں رینجرز نے سرفراز شاہ کو سیدھی گولیاں ماریں ۔ ریاستی دہشت گردی کی بے شمار مثالیں ہیں۔ریاستی دہشت گردی کی سب سے بڑی مثال بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کاویرانے سےملنا بھی ہے۔بلوچ عوام پچھلے کئی سالوں سے ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ ریاست کی جانب سے جب کسی کی مسخ شدہ لاش کسی ویرانے میں پھینک دی جائے تو کیا وہ دہشت گردی نہیں ہوگی؟ لیکن میڈیا کا رویہ خاموشی والا ہے۔ کئی سالوں سے جاری بلوچستان میں دہشت گردی پنجاب والوں کے نزدیک ایک معمول ہے جس پر کوئی شورو غوغا نہیں ہوتا۔
کو ئی سال پہلے بلوچستان سے ایک اجتماعی قبر سے ۱۷۳ لاشیں ملیں لیکن کوئی شور نہیں ہوا؟ ابھی دو ہفتے پہلے ہی ریاستی اداروں نے ایدھی فائونڈیشن کی مدد سے سترہ لاشوں کو دفنا دیا کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا کہ یہ لاشیں کہاں سے آئیں ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔ اگر کوئی سوال کر ے گا تو اسے اٹھا لیا جاتا ہے۔
وزیر قانون راجہ بشارت کے بیان کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ساہیوال کیس کا انجام بھی راؤ انوار والے کیسوں جیسا ہو گا کیونکہ دونوں کے پیچھے ایک ہی طاقت ہے ۔