ارشد بٹ
جنرل ضیا اور جنرل مشرف بھی ایک پارلیمنٹ رکھتے تھے جس کے اراکین عوامی ووٹوں سے منتخب کروائے گئے تھے۔ جرنیلوں کے زیر سایہ وزیر اعظم اور لاتعداد وزرا پر مشتمل کابینہ بھی وجود میں لائی گئی تھی۔ چاروں صوبوں میں صوبائی اسمبلیاں بھی عوامی ووٹوں سے معرض وجود میں لائی گئیں۔ صوبائی وزرا اعلیٰ اور وزرا بھی دندناتے پھرتے تھے۔
مگر جرنیلوں کی چھتری کے نیچے کنٹرولڈ ڈیموکریسی اور کنٹرولڈ جمہوری اداروں کی حیثیت سے عوام بخوبی آگاہ تھے۔ پارلیمنٹ کے ربڑ سٹیمپ ہونے، اسکی بے اختیاری اور بے بسی پر عوام کو کبھی شک نہیں رہا۔ وزیر اعظم، وزرا اعلیٰ اور وزرا کی طاقت کا سر چشمہ پارلیمنٹ، آئین اور قانون نہیں بلکہ صدر کے روپ میں اقتدار پر براجمان ایک ڈکٹیٹر جرنیل تھا۔ میڈیا کی آزادی آمروں کے آہنی شکنجے کی نظر ہو چکی تھی۔ طاقت کا دبدبا اور خوف ایسا کہ اعلیٰ ترین عدالت نے فوجی آمروں کو آئین کا حلیہ بگاڑنے اور من مانی ترامیم کا غیر آئینی اختیار تفویض کر دیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ عدالت عظمیٰ نے آئین کو ڈکٹیٹروں کے گھر کی باندی بنا دیا تھا۔
آمروں نے عدلیہ کے غیر آئینی فیصلوں سے حاصل کردہ ماورائے آئین اختیارات سے عوامی جمہوری حقوق اور وفاقی جمہوری اصولوں کی دھجیاں اڑائیں۔ وفاق، چاروں صوبوں اور بلدیاتی اداروں کے مالی اور سیاسی اختیارات کا منبہ مرکز میں بیٹھا ایک آمر قرار پایا۔ آمر کی خواہش پر صوبوں کی خودمختاری، اختیارات کی صوبوں اور نچلی سطح تک منتقلی کے راستے بند کر دئے گئے۔ عوامی خوشحالی اور عوامی مسائل کا حل تو ڈکٹیٹروں کے ایجنڈے میں شامل ہوتا۔ اس لئے عالمی طاقتوں کے ایجندے کی تکمیل اور مالی محتاجی آمرانہ حکومتوں کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ اسی لئے آمروں کے اقتدار کو طول دینے میں عالمی طاقتوں نے اہم کردار ادا کیا۔
آج ملک کے اقتدار پر کسی طالع آزما آمر کا قبضہ نہیں۔ ملک میں ایک منتخب پارلیمنٹ ہے۔ وفاق اور تین صوبوں میں تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومتیں ہیں جبکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے۔ مگر آج بھی پارلیمنٹ کی بے بسی اور بے اختیارہونے کا رونا رویا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت قومی اہمیت کے معاملات قومی اسمبلی میں زیر بحث لانے سے گریزاں ہے۔ اہم خارجہ، داخلہ، اورقومی سلامتی امور پارلیمنٹ سے بالا بالا طے کئے جاتے ہیں۔ اپوزیشن الزام لگا تی ہے کہ حکومت نے قومی اسمبلی کو عضو معطل بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی اور اہمیت کو کمتر کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
منی بجٹ پیش کرنے کے علاوہ حکومت قانون سازی پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کے سامنے پارلیمنٹ، سول اداروں اور انتظامیہ کی بے بسی بھی دیدنی ہوتی ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم سے پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی، اور سول انتظامی اداروں کی خودمختاری کو دھچکا لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر چیف جسٹس مقننہ اور انتظامیہ کا کام سنبھال لے تو جمہوری عمل، جمہوری حکومتوں اور انتظامیہ پر عوام کا اعتماد اٹھنے لگاتا ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کا ایسا تسلسل غیر جمہوری اور آمرانہ قوتوں کا راستہ ہموار کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ بقول ایک ماہر قانون سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا جوڈیشل ایکٹوازم جوڈیشل ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل ہو گیا تھا اور انہوں نے آئینی حدود سے آگے جا کر کام کیا۔
آئین میں طے شدہ صوبائی حقوق کی خلاف ورزی اور پامالی پر احتجاجی آوازیں بلند ہو رہی ہے۔ صوبوں کو اٹھارویں آئینی ترامیم میں حاصل صوبائی خودمختاری کو عملا ختم کرنے کی سازشیں زور و شور سے جاری ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت حکمرانوں کے مرکزیت پسند مذموم عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ صوبہ سندھ کو غیر آئینی مرکزی کنٹرول میں لانے کے لئے کبھی گورنر راج کی بات کی جاتی ہے، تو کبھی پی پی پی میں فارورڈ بلاک بنا کر پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے صوبائی خودمختاری کے خلاف ہر قسم کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے گذشتہ دنوں کراچی کے ہسپتال کو وفاقی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا۔ آئینی ماہرین نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے اس فیصلے کو صوبائی حقوق کی آئینی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ مستقبل میں صوبائی حقوق سلب کرنے کی راہ ھموار کر سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مقتدرہ قوتیں اٹھارویں آئینی ترمیم میں متعین کردہ صوبائی حقوق کو قومی سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں سمجھتیں۔ مگر حالات کی سنگینی نشاندھی کرتی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے مابین طے شدہ آئینی اختیارات اور ذمہ داریوں کی اکھاڑ بچھاڑ ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دے گی۔
اظہار خیال اور میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ اور پابندیوں کا شور و غوغا ہر جانب سنا جا سکتا ہے۔ کئی خبریں اور کالم اشاعت سے روک دئے جاتے ہیں، متعدد میڈیا اینکر کو نام نہاد آزاد چینل چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ سینکڑوں صحافی اور اخباری کارکن بیروزگاری کا شکار ہو چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا طاقتور حلقوں کے متعین کردہ فریم ورک اور دائروں کے اندر رہ کر آزادی کا لطف اٹھاتا رہے۔ متعین کردہ حدود سے باہر قدم رکھنے کی صورت میں اشتہارات اور چینل بند ہونے کا خطرہ مول لینے کو تیار رہیں۔ روز افزوں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوامی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ قرضوں اور تارکین وطن کی مالی ترسیلات کی محتاج زوال پذیر معیشت سے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے نطر نہیں آتے۔
موجودہ غیر یقینی حالات ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام، معاشی اور آئینی بحرانوں کی نشان دہی کرتے نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ناتجربہ کار حکومت کی متکبر، خوش فہم اور نااہل قیادت سے بہتر سمت تبدیلی کی امیدیں دن بدن دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ جبکہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے عوامی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان کے دگرگوں معاشی اور سیاسی حالات ایک نئی جمہوری تحریک کا تقا ضہ کرتے ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد کسی حکومت کو گرانا نہیں بلکہ گھمبیر ملکی اور عوامی مسائل کے حل کے لئے حکمرانوں پر دباو بڑھانا ھونا چاہیے۔
نئی جمہوری تحریک کے بنیادی مقاصد میں مہنگائی کے مطابق سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین کی آمدن میں اضافہ، روزگار، تعلیم اور طبی سہولیات کی فراہمی، پارلیمنٹ، آئین اور سویلین اداروں کی بالادستی، آئین میں دی گئی صوبائی خودمختاری کا تحفظ، میڈیا کی آزادی اور انتظامیہ کے جبر کے خلاف بنیادی شہری حقوق کا تحفظ۔، شامل ہونا چاہیے۔
♥