سولہ دسمبر ۲۰۱۴ کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں ۱۲۵ سے زائد طالب علم ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد حکومت نے دہشت گرد ی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا جس کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت بھی دی گئی تاکہ دہشت گردی میں ملوث سویلین پر مقدمہ چلایا جا سکے۔
آرمی پبلک سکول پر حملے کی آڑ لے کر فوجی عدالتیں تو بنائی گئیں لیکن چار سال گذرنے کے بعد بھی حملے کے مجرم گرفتار نہیں ہو سکے۔ ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین آج بھی احتجاج کر رہے ہیں لیکن ریاستی ادارے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ الٹا والدین کو احتجاج کرنے سے روکا جاتا ہے۔
فوجی عدالتوں نے نامعلوم سویلین کو تو سزائیں سنائی ہیں لیکن کسی بھی بڑے دہشت گرد کو نہ تو گرفتار کیا اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلا۔ احسان اللہ احسان جس نے سکول پر حملے سمیت سینکڑوں افراد کےقتل کی ذمہ داری لی تھی وہ ریاستی اداروں کا مہمان بنا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو سزا سنائی گئی کیا وہ واقعی مجرم تھے؟کیونکہ ان کی سماعت کھلی عدالت کی بجائے بند کمرے میں ہوئی اور نہ ہی کسی وکیل کو ان کے ریکارڈ تک رسائی ہوئی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مطابق فوجی عدالتوں میں سب سے بڑا مسئلہ شفافیت ہے جو آئین کے آرٹیکل ۱۰ اے کے مطابق ہونی چاہیے۔ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو دفاع کا موقع نہیں دیا اور نہ ہی وکلا تک رسائی دی گئی۔ ان کا فیس لیس ٹرائل کیا گیا اور اس کی بنیاد اعترافی بنیاد کو بنایا گیا۔ اور ان لوگوں کو سزائے موت سنائی جو پہلے سے ہی فوجی حراست میں تھے۔
پشاور ہائی کورٹ میں ستر افراد کی سزائے موت کو چیلنج کیا گیا جس پر عدالت نے اس سزا کو معطل کر دیا۔ ہائی کورٹ کے مطابق تین مختلف فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والوں کا اعتراف جر م کا ہینڈ رائٹنگ اور متن ایک جیسا ہے اس میں کومے اور فل سٹاپ کا بھی کوئی فرق نہیں۔ ان افراد کو اپنا وکیل کرنے کی بجائے فوجی ادارے کے مقرر کردہ وکیل دیئے گئے اور سزا پانے والے افراد کچھ عرصے سے لاپتہ تھے۔
پاکستان بار کونسل کے مطابق پاکستان میں فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ کبھی پہلے تھی اور نہ ہی آج ۔ فوجی عدالتوں کا خیال ترقی یافتہ معاشرے کے نظریے کے خلاف ہے۔ترجمان کے مطابق جب بار کونسل نے فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا تھا تو جسٹس ناصر الملک نے فیصلہ دیا کہ فوجی عدالتوں کا قیام جوڈیشل ریویو سے مشروط ہو گا۔ مگر اس فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا۔ عدالت کی جانب سے جب بھی فوجی عدالتوں کا ریکارڈ مانگا گیا تو وہ بھی نہ دیا گیا ۔ جسٹس ثاقب نثار کے دور میں تو یہ معاملہ دبا دیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایک انتہائی خطرناک رحجان ڈویلپ ہو رہا ہے۔ ملٹری کو جوڈیشلائز اور جوڈیشری کو ملٹرائز کیا جارہا ہے اور اس کا نشانہ لاپتہ افراد بن رہے ہیں۔ جب عدالت لاپتہ افراد کے متعلق پوچھتی ہے تو ادارے جواب دیتے ہیں کہ ان کا مقدمہ تو ملٹری کورٹ میں ہے۔