ایمل خٹک
افغان امن مذاکرات میں اتار چڑھاؤ ، اُمید اور نا اُمیدی ، توقعات اور خدشات ، مشکلات اور چیلنجز اپنی جگہ مگر امن پراسس کے جلد یا بدیر اپنے منطقی انجام کو پہنچنے کا امکان ہے ۔ نیا بدلتا ہوا افغان منظرنامہ نئی سیاسی صف بندی اور نئے سفارتی ترجیحات کا باعث بن رہا ہے ۔ افغان مسئلہ جلد یا بدیر حل ہونے کا امکان اس لئے پیدا ہوگیا ہے کہ ایک تو افغانستان کے داخلی اور خارجی سڑٹیجک ماحول یکسر تبدیل ہو چکا ہے ۔ امریکہ کی دلچسپی نسبتا کم اور روس کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ چین سرگرمی سے علاقے میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے ۔
دوسرے افغان مسئلے کے داخلی اور بیرونی سٹیک ہولڈرز یعنی شراکت دار اب تنازعے کی طوالت سے تھک چکے ہیں ۔ تنازعے کو جاری رکھنا اب فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بن رہا ہے ۔ مسلسل جنگ اور بدامنی کی وجہ سے نہ صرف افغانوں کا بلکہ افغانستان میں ملوث تمام علاقائی اور بین القوامی قوتوں کے اعصاب جواب دے رہے ہیں ۔ اور یہ قوتیں اب افغان امن مذاکرات کو جلد ہی کسی منطقی نتیجے پر منتج دیکھنا چاہتی ہیں ۔
افغانستان میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ تو ممکن نہیں مگر تنازعے کی شدت میں کمی آجائیگی ۔ علاقائی اور عالمی طاقتیں اب زیادہ تر اپنے سیاسی کھلاڑیوں کے ذریعے سٹرٹیجک بُزکشی کھیلے گی۔ ایران اور سعودی عرب ، پاکستان اور انڈیا ، ایران اور پاکستان اور چین اور روس دونوں امریکہ سے پراکسی وار جاری رکھے گی ۔ اب فرق یہ ہوگا کہ فوجی کی بجائے سیاسی ذرائع استعمال کیے جائیں گے ۔ اکا دکا اور محدود سطح پر دھشت گردی جاری رہے گی ۔ کیونکہ بعض علاقائی ممالک کو سافٹ پاور کے استعمال کا تجربہ کم جبکہ ہارڈ پاور کا زیادہ ہے ۔مثلا ایران اور انڈیا افغانستان میں سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کیلئے سافٹ پاور استعمال کررہے ہیں جبکہ پاکستان زیادہ ترہارڈ پاور پر انحصار کررہا ہے ۔ افغان حکومت کو فوجی دباؤ میں رکھنا ان کی مجبوری ہے۔
افغان مسئلے کےداخلی ہو یا خارجی اکثر شراکت داروں کیلئے اب تنازعہ فائدے کی بجائے گھاٹے کا سودا ہے۔ جہاں تک طالبان کے ایک اہم حمایتی پاکستان کا تعلق ہے تو اب طالبان اس کیلئے قیمتی اثاثے کی بجائے ایک لائبلٹی یعنی بوجھ بن چکے ہیں ۔ افغان تنازعے کے سلسلے میں آنے والی بیرونی امداد کی بندش یا کمی سے اب پاکستان کی ناتواں معیشت تنازعہ کو گرم رکھنے سے قاصر ہے ۔ اب بیرونی امداد جنگ کو ہوا دینے اور پاکستان کی سرزمین سے پڑوسی ممالک خاص کر افغانستان میں مداخلت کیلئے نہیں بلکہ قیام امن کیلئے آرہی ہے ۔
بعض خلیجی ممالک سے حالیہ اقتصادی بیل آوٹ یعنی اقتصادی مشکلات کم کرنے کیلئے رعایتی قرضے اور تیل یا دیگر امداد افغان مسلے کے حل میں مثبت کردار ادا کرنے سے جوڑا ہوا ہے۔ خلیجی ممالک بعض وجوہات کی وجہ سے امریکہ کو خفا نہیں کرسکتے جبکہ پاکستان اقتصادی مشکلات کی وجہ سے بعض امور میں “دوست ممالک “ کے مشوروں اور دباؤ کو نظرانداز نہیں کرسکتا ۔
پاکستان کے کوتاہ نظر اور ناعاقبت اندیش پالیسی سازوں کو تو اپنی جیو سٹرٹیجک اہمیت سے فائدہ اٹھانے کا گُر آتا ہے مگر اب بین القوامی تعلقات میں جیو سٹرٹیجک کی بجائے جیو اکنامک فیکٹر کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ جیو اکنامک حوالے سے ان کی تیاریاں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اب جیو سٹرٹیجک فیکٹر سے فائدہ اٹھانے کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں۔ نئے بدلتے علاقائی سٹرٹیجک منظرنامے میں افغان مسئلہ حل ہونے کے بعد صورتحال یکسر بدل جائیگی۔ اب پڑوسی ممالک میں اثرورسوخ بڑھانے کیلئےہارڈ پاور کی بجائے سافٹ پاور استعمال کرنا ہوگی مگر بدقسمتی سے اس سلسلے میں پاکستانی پالیسی سازوں کا پڑوسی ممالک مثلا چین ، ایران اور انڈیا کی نسبت سافٹ پاور کے استعمال کا تجربہ بہت کم ہے ۔
مستقبل کے افغان منظرنامے میں طالبان کا رول کم ہو یا زیادہ مگر بعض ٹھوس حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستان کا کردار نسبتا کم ہوگا ۔ پاکستان طالبان کو ایسے وقت ڈیلیور کر رہا ہے جب پل کے نیچے سے بہت پانی گزرچکا ہے ۔ ان سطور میں باربار ہم پاکستانی پالیسی سازوں کی غلط افغان پالیسی کے مضمرات اور منفی اثرات کی نشاندہی کرتے رہے ہیں ۔ دو کشتیوں پر سواری کا یعنی ایک ہاتھ افغان حکومت کے ساتھ دوستی کیلئے آگےبڑھانا اور دوسرےہاتھ سے اس کے مسلح مخالفین کے حمایت اور امداد کے نتیجے میں افغانستان میں پاکستان کیلئے خیرسگالی کے جذبات سرد ہوچکے ہیں۔ تجارتی تعلقات روبہ زوال ہیں ۔
عام تاثر یہ ہے اقتصادی مشکلات اور بعض دوست ممالک کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان نے مجبور ہوکر طالبان کو مذاکرات پر لانے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا ہے ۔ اور اب بھی عام افغان پاکستانی پالیسی سازوں ک نیک نیتی پر شک کررہے ہیں ۔ اور تو اور طالبان کو بھی پاکستان سے بہت زیادہ گلے شکوے ہیں مگر کچھ مجبوریوں اور مصلحت کی وجہ سے وہ خاموش ہیں ۔ ایک تو پاکستانی جیلوں یا سرزمین پر ھلاک ہونے والے کئی طالبان راہنماوں کی ہلاکت کا شبہ پاکستانی ایجنسیوں پر کیا جاتا ہے ۔ مثلا حقانی نیٹ ورک کے ڈاکٹر نصیرالدین حقانی کی ہلاکت ہو یا افغان طالبان کے سربراہ ملا آختر منصور کی طالبان نجی محافل میں شبہ پاکستانی ایجنسیوں پر ظاہر کرتے ہیں ۔
اس طرح اسلام آباد میں طالبان حکومت کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی گرفتاری اور پھر ان کی امریکہ کو حوالگی کے علاوہ پاکستان کی بعض پالیسیوں سے اختلاف رکھنے کی پاداش میں کئی طالبان سینئر راہنماوں بشمول ملا عبدالغنی برادر ، مولانا عبیداللہ اخوند ،ملا عبدل قیوم ذاکر وغیرہ کی گرفتاری سے بھی طالبان حلقوں میں ناراضگی موجود ہے ۔ دوسرا پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عام افغانوں یا مہاجرین سے ناروا سلوک کی وجہ سے بھی طالبان میں ناراضگی اور خفگی پائی جاتی ہے ۔
کئی طالبان کمانڈر نجی محفلوں میں اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ بعض علاقائی طاقتوں کیلئے سودابازی کا ایک پتہ ہے ۔ اور وہ ان کی حمایت اور مدد کسی مذ ہبی جذبے یا انسانی ہمدردی کے تحت نہیں بلکہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے کر رہا ہے ۔ اور مزید یہ کہ کسی بھی وقت ان کو قربانی کا بکرا بنایا جاسکتا ہے ۔
تیسرا افغان عوام میں پاکستانی ریاست کے حوالے سے مخصمانہ جذبات پہلے کی نسبت اب زیادہ شدت سے موجود ہیں ۔ اب طالبان کیلئے اپنے غیر افغان حمایتیوں خاص کر پاکستان سے تعلق رکھنے والے عناصر کو پاس رکھنا مشکل ہوگا۔ چوتھا اب پہلے کی نسبت افغانستان میں ایک ریاستی ڈھانچہ موجود ہے ایک نظام موجود ہے اسکو توڑنا مشکل ہوگا ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغان ریاستی پالیسیاں اور مشینری مخاصمت کی فضا میں پروان چڑھی ہے کیونکہ افغان عوام کی اکثریت پاکستانی ریاستی ادارواں کو طالبان کے دھشت گرد حملوں اور کاروائیوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر یکساں ذمہ دار سمجھتی ہے ۔
امریکہ – طالبان مذاکرات میں طالبان کے بعض نکات علاقائی طاقتوں کے ایجنڈے کے نکات لگتے ہیں ۔ وسیع افغان تناظر میں طالبان کیلئے اب افغانستان میں علاقائی طاقتوں کے ایجنڈے کو پروان چڑھانا مشکل ہوگا ۔ اب افغان عوام کی شعوری سطح بلند ہوچکی ہے اور اچھے بُرے کی تمیز بڑھ گئی ہے ۔ اب طالبان کے بارے میں بھی افغان عوام کی سوچ کافی بدل چکی ہے ۔ افغان عوام کی اکثریت طالبان کے خلاف ہیں مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے خاموش ہیں ۔
اب ماضی کی نسبت طالبان کو ناسازگار ماحول اور کئی قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب افغانستان میں ایک سرگرم عمل سول سوسائٹی ہے بیدار میڈیا ہے اور سب سے بڑھ کر فعال اور ایک وسیع سوشل میڈیا موجود ہے جہاں تعلیم یافتہ نوجوان روزمرہ زندگی کے واقعات کو بیان یا ان پر بے لاگ رائے زنی کرتے ہیں ۔
جس طرح مسئلے کے ایک اہم شراکت دار کے حیثیت سے افغان طالبان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اس طرح افغان حکومت کو نظرانداز کرکے یا اس کو اعتماد میں لئے بغیر افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اگر بین القوامی یا علاقائی طاقتیں افغانستان میں واقعی امن اور ایک پائیدار نظام چاہتی ہے تو پھر افغانوں کو خود اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق دینا چائیے بصورت دیگر ماضی کی طرح امن معاہدہ کے نام پر افغانستان کو ایک اور خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جائیگا ۔ اور تباہی اور بربادی کا ایک اور مرحلہ شروع ہوجائیگا ۔ امن مذاکرات کی کامیابی کا دارومدار نہ صرف تمام داخلی بلکہ خارجی شراکت داروں کو اعتماد میں لینے اور کسی بھی ممکنہ معاہدے کی صورت میں ان کی مکمل حمایت پر ہے ۔
♦