علی احمد جان
شکیلہ قاتل نہیں بلکہ مقتول ہے، وہ جسمانی طور پر تو اپنی جان نہ لے سکی مگر اس کی روح اس کی بیٹی کے ساتھ سمندر کے کنارے دو دریا کی ریت میں دفن ہوچکی ہے۔ اس کی روح کی موت اس وقت ہی ہو چکی تھی جب اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں نے اس کے وجود کو اپنے لئے بوجھ سمجھا ۔ اس کے احساس کا اس روز ہی قتل ہوا تھا جب اس شوہر نے جس کے لئے وہ سب چھوڑ آئی تھی اس کوبیٹی سمیت گھر سے دھکے دے کر نکال دیا تھا۔ آج تو شکیلہ کابے روح لاشہ ہی ہےجو اس کی بیٹی کے ساتھ ریت میں دفن نہ ہو پایا ۔ ہم جس شکیلہ سے بات کر رہے ہیں وہ اس سماج کی ہزاروں لاکھوں دیگر نیم مردہ چلتی پھرتی لاشوں کی طرح ایک بے روح لاش ہے۔
جب وہ باتیں کررہی تھی تو اس کے چہرے پر زندہ بچ جانے کی خوشی نہیں تھی بلکہ اپنی بیٹی کے ساتھ نہ مرنے کا دکھ نمایاں تھا۔ اس کو گلہ نہیں کہ دنیا نے اس کے ساتھ کیا کیا بلکہ اس کو دکھ یہ ہے کہ جب اس کو اپنے حالات کا زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے ہے تو اس کو ان حالات کو ٹھیک کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا۔ گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے پرتو ہر کسی کی عزت کو آنچ آتی ہے مگرتو گھر کی چار دیواری میں عزت نفس کا چارہ گر کوئی نہیں۔
شکیلہ نے اپنی ننھی پھول جیسی بیٹی کو گھر سے نکلنے سے پہلے گلابی رنگ کے کپڑے اور اسی رنگ کے جوتے پہناتے ہوئے اس کی جان لینے کا نہیں سوچا ہوگابلکہ یہ ماں کا بیٹی کو اس طرح تیار کرنا معمول کی بات تھی۔ کون ہے جو اپنی دودھ پیتی بچی کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے اور خود کو بھی دریا کی بے رحم موجوں کے حوالے کرے۔ یہ صرف اس وقت ہی ہو پاتا ہے جب مایوسی کے اندھیرے ہر طرف چھا ئے ہوں اور سوائے موت کے اور کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ دنیا اس کیفیت کو کچھ بھی نام دے مگر میرے لئے یہ کیفیت ان تمام سماجی رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے جن کا اس کیفیت میں مبتلا ہونے والا سامنا کرتا ہے۔
اس ننھی پھول کے ہاتھوں میں روز دیا جانے والا جاڑو اور ملنے والی دھتکار اس ماں کے لئے کتنی تکلیف دہ ہوتی ہوگی جو اس کو دودھ پلانے سے بھی قاصر ہو ۔ اپنے ماں باپ کی شفیق نگاہیں جب گھورنے لگ جائیں تو اولاد اپنے لئے تو برداشت کرلیتی ہے مگر اپنی اولاد کے لئے ایسا رویہ سہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اپنی گود میں اٹھا اٹھا کر پالی ہوئی چھوٹی بہنیں جب دشمن سمجھنے لگیں تو ایک چھت کے نیچے ساتھ رہنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ جب بیٹی رشتے کے بندھن کے ساتھ پاؤں کی زنجیر بن گئی تو شکیلہ نے نہ صرف اپنی جان لینے کا فیصلہ کیا بلکہ بیٹی نام سے جڑےہر رشتے کو ختم کرنا چاہا اور اپنی جان لینے سے قبل بیٹی کو سپرد دریا کردیا۔
یہ کیسا سماج ہے جہاں ایک عورت پر اس لئے ظلم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جیسی بیٹی کو کیوں جنم دیا ہے ۔ یہ کیسا سماج ہے جہاں ایک ہی باپ سے پیدا ہونے والی اولاد جب بیٹی کہلائے تو اس کی وراثت سے محروم ہوجاتی ہے اور بیٹا کہلائے تو اس کا جانشین بن جائے۔ یہ کیسا سماج ہے جہاں عورت کے لئے زندگی بھر دوسروں کے گھر میں رہنا ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے ماں باپ کے گھر میں تین دفعہ نکاح میں ہاں کہنے تک اور شادی کے بعد شوہر کے گھر میں طلاق کے تین بول کہنے تک کی مہمان ۔ ماں باپ مر جائیں تو بھائی گھر سے نکال دے اور جب شوہر مر جائے تو سسرال چلتا کردیں۔ ایسے میں جینے سے آسان مرنا نہیں ؟
یہ کیسا سماج ہے جہاں ایک لڑکے اور لڑکی کو بغیر دیکھے ، پرکھے اور جانچے میاں بیوی کے بندھن میں جوڑ دیا جاتا ہے صرف اس بنیاد پر کہ لڑکی خوبصورت ہے، سگھڑ ہے ، لڑکے کی نوکری اچھی ہے اور آمدنی بہتر ہے۔ جب دونوں کے مزاج میں فرق ہو ، پسند اور ناپسند مختلف ہو یا ایک دوسرے کے ہم پلہ نہ ہوں تو لڑکی کو ہی قربانی دینا ہے ۔ جب لڑکی قربانی نہ دے پائےتو وہ بدمزاج اور نافرمان لیکن لڑکا ایسا کرے تو یہ اس کا حق ۔ کیا اس سماج میں لڑکی کا کوئی حق نہیں ہوتا؟
زندہ رہنے ، جسم و روح کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے پیٹ بھرنا اور تن ڈھانپنا بھی ضروری ہے۔ انسان خود بھوک پیاس برداشت کرلیتا ہے ، کم پہن لیتا ہے لیکن جب اولاد ان بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو تو اس کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ یہ کیسا سماج ہے جہاں مرد کچھ بھی کرے تو مردانگی اور عورت کہیں جاکر نوکری جیسا معمولی کام بھی کرنا چاہے تو غیرت کی دیوار سامنے آتی ہے۔ ایسی بے بسی اور مجبوری کے عالم میں اپنوں اور غیروں کی ترچھی نگاہوں کا سامنا کرنے سے زیادہ آسان شائد اسی زندگی کا خاتمہ ہے جس کی وجہ سے ستم اٹھانے پڑتے ہیں۔
ہم نے عورت کو اپنا جیسا انسان سمجھا ہی نہیں ہے تو اس کے جینے یا مرنے سے کیا فرق نہیں پڑتا ہے۔ جب اس کی تعلیم ہماری جیسی نہیں ہوتی اور جب اس کی نوکری کم تر ہوتی ہے اور جب اس کی رائے ناقص ہوتی ہے تو پھر اس کا جینا کیوں ضروری ہو۔ شوہر کو ایک اور بیوی مل جائیگی، ماں باپ کی اور بھی بیٹیاں ہیں اور بہن بھائیوں کو اب گھر میں زیادہ جگہ مل جائیگی تو دکھ کس کو ہے۔ بیٹی کی نہ پیدائش پر خوشی نہ موت پر دکھ تو یہ جنس پیدا ہی کیوں ہو ۔جب پیدا کرکے ماں باپ ہی بوجھ سمجھیں تو دنیا سے کیا گلہ، جب شادی کرکے شوہر ہی نہ نبھائے تو زمانے سے کیا شکوہ؟
شکیلہ کا شوہر اپنی بیوی اور بیٹی کو گھر سے نکالنے کے بعد بھی ایک باعزت آدمی ہے جو پھر شادی کرے گا اور ساری زندگی اس کو مجرم سمجھے گا۔ ماں باپ اس کی کھوٹی قسمت کو دوہائی دیں گے۔ اس کی ہم جولیاں اس سے کن کترائیں گی کہ کہیں وہ بھی اس جیسی نہ سمجھی جائیں۔ شکیلہ کے لئے اب آگے گزارنے والی زندگی لمحہ لمحہ ملنے والی موت ہے ۔ وہ بیٹی کی قاتل کہلائے گی ، پولیس کی تفتیش سے گزرے گی ، عدالتوں کا سامنا کرے گی، وکیلوں کے تلخ و ترش سوالوں کا جواب دے گی اور ان سب سے نکل بھی جائےتو شائد اس کو خود کا سامنا کرنا اتنا آسان نہ ہو۔ مگر اس سماج سے کوئی پوچھ کچھ نہیں ہوگی جس نے اس کو اس حال تک پہنچایا۔
کیا ہم بطور سماج شکیلہ کے اس انتہائی اقدام سے صرف یہ سبق حاصل کرسکیں گے کہ بیٹی اور بہن کو بھی بیٹے اور بھائی جیسا حق دیا جائے اور ان کو بھی پسند کی شادی، نوکری اور کاروبار کرنے اور حق وراثت سمیت تمام حقوق دئے جائیں تاکہ پھر کسی شکیلہ کو اپنی اولا دریا کے سپرد کرنے کی نوبت نہ آئے ؟
♦