خالد عمر
پشتون تحفظ موومنٹ سیاسی اور سول حقوق کی تحریک ہے جس کی بنیاد عدم تشدد پر ہے۔
سوال یہ کہ کیا عدم تشدد کی پالیسی قابل عمل اور دیرپا ہے؟ تاریخ اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟
مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد عدم تشدد کی بہترین تاریخی مثال ہے۔ آج پاکستان میں نسلی اقلیتوں کو جن حالات کا سامنا ہے انہی سیاق و سباق میں کنگ کو بھی تحریک چلانی پڑی۔ مارٹن لوتھر کنگ اور اس کے پیروکاروں کا خیال تھا کہ امریکا کے شمالی ریاستوں میں سیاہ فام شہری جس بدترین ظالمانہ نظام کے شکار تھے اس نظام کو عدم تشدد پر مبنی اقدامات سے چیلنج کرنا چاہیے تھا۔
ھندوستان میں گاندھی اور اسکے پیروکار باچاخان وغیرہ بھی عدم تشدد کی پالیسی پر مبنی جدوجہد سے سے برطانوی حکومت سے آزادی کیلئے متحرک تھے۔ کیا مارٹن لوتھ کنگ اور گاندھی کو کامیابی ملی؟ اگر ملی تو کیوں؟
مارٹن لوتھر کنگ اور گاندھی دونوں کی تحریکوں کی کامیابی کا فیصلہ کن وجہ امریکہ اور برطانیہ کے پولیٹیکل سسٹم تھے۔ دونوں ممالک جمہوریتیں تھے۔ تاریخ کی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ عدم تشدد کی پالیسی صرف وہیں کامیابی سے ہم کنار ہوئی جہاں متعلقہ تحریکوں کا مقابلہ جمہوری حکومتوں سے ہو، نہ کہ استبدادی نظاموں سے۔ ذار سوچیں اگر مارٹن لوتھر کنگ یا گاندھی کا مقابلہ نازی جرمنی یا سٹالین کے سوویت یونین سے ہوتی تو نتائج کیا نکلتے؟
قابل ذکر ہے کہ عدم تشدد کے عدم تشدد کے حامی سٹالین کےدور میں بھی زندہ رہے مگر اس نظام پر فتح ان کی مقدر نہ ہوسکتی۔بعینہ پشتون عدم تشدد عالمی رائے عامہ کو تشکیل دے سکتی ہے، سوشل میڈیا اور انسانی حقوق کے تنظیموں کو کھینچ سکتی ہے، تاہم اس ٹھوس نتائج کچھ بھی نہیں ہونگے۔ اسکے اثرات طرز عمل کے ہونگے، ساخت میں تبدیلی کے نہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کی عدم تشدد پر مبنی تحریک عالمی رائے عامہ کی آگاہی کیلئے کارگر ہو نہ ہو، پاکستان کی عسکری ریاست کے پالیسی پر اسکی ذرا برابر اثر انداز ہونے کا امکان نہیں۔ تبت میں دلائی لامہ کی عدم تشدد کی تحریک واضح مثال ہے۔ چین پر اسکے اثرات صفر ہیں۔ ہاں مغرب میں دلائی لامہ کی شخصی مقبولیت ضرور بڑھ گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔ مگر فائدہ؟
گاندھی کے عدم تشدد کا فلسفہ کی برطانیہ میں کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ برطانوی عوام سیاسی جبر سے سخت متنفر ہیں برطانوی عوام اپنے آزادی کے سنگ میل میگنا کارٹا پر فخر کرتے ہیں اور عدم تشدد پر مبنی تدریجی اصلاحات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے برعکس مرکزی یورپ کے اقوام سیاسی تبدیلیوں کیلئے انقلابات اور خانہ جنگی کا سہارا لیتے ہیں۔
دوسری جنگی عظیم کے بعد برطانیہ کے پاس وہ وسائل باقی نہ تھے کہ اپنے وسیع نوآبادیات برقرار رکھ سکے۔ انڈیا کی آزادی ایک گونہ برطانیہ کے اقتصادی مجبوریوں اور سیاسی مسائل کی مرہون منت تھی۔ نہ کہ گاندھی کے کے عدم تشدد کے پالیسی کا!جہاں مخالف قوت آپ کو قتل کرنے اور صفحہ ھستی سے مٹانے کیلئے تیار ہو۔ وہاں عدم تشدد کی پالیسی نہ صرف بیکار ہے بلکہ باعث تباھی بھی۔
یہی کچھ پشتون تحریک سے ہورہا ہے۔ پشتون عدم تشدد کے نتائج بلکل صفر ہوں گے۔ ارمان لونی جیسے شہداء کی خون رائیگاں جائے گی۔۔۔۔ نازی جرمنی میں گاندھی اور مارٹن لوتھر صرف گیس چیمبر میں مرجاتے۔۔۔۔۔۔ اور بس۔ پشتون تحفظ موومنٹ اپنے عدم تشدد کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔۔۔۔۔۔ یا تاریخ کے سیلاب میں ایک بلبلے کی طرح معدوم ہوجائے گی۔
عدم تشدد اپنی جنگی وقعت کھو چکی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف ہر اٹھنے والی وہ تحریک جس کی بنیاد عدم تشدد پر تھی مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ ظلم اور تشدد کی قوت نے تاریخ میں عدم تشدد کی ہر نظریے کو جھٹلایا۔ یہ نری حماقت ہوگی اگر میں عقیدہ رکھوں کہ محض میرا نظریہ مخالف کی گولی کا مقابلہ کرے گا۔ عدم تشدد کبھی بھی تشدد کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ تاریخ میں ایسی ایک مثال بھی نہیں۔
عدم تشدد زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہے کہ ریاستی طاقت کو ایک نقاب ہٹا کے دوسرا نقاب اوڑھنے پر مجبور کرے، اور طاقت کے اصل سرچشمے ایک پارٹی کو تخت سے گرا کر دوسرے کو تخت نشین کرے۔ تاہم اس سے حقیقی تبدیلی کی توقع احمقوں کی جنت میں رہنا ہے۔ یہی نسخے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے سیکھے ہیں کہ جمہوریت کے لبادے میں مارشل لاء برقرار رکھا جائے اور آزاد میڈیا کے منہ پر کیسے تالا لگا یاجائے۔
عدم تشدد ایک ایسی سطحی اور فریب دہ تبدیلی کیلئے ایسے حالات میں کارگر ہوگی جب اعلی طبقے بشمول میڈیا، امیر طبقہ اور کسی حد تک ملٹری کا ایک ناراض حصہ اسکی تائید کرے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی ایسی مثال نہیں کہ عدم تشدد محض نظریہ کے بل بوتے پر طاقت کے سامنے ٹھہرا ہو۔
جب کسی تحریک والوں کو میڈیا، این جی اوز، ملٹری، پولیس، پارلیمنٹ، سیاست دانوں یا سرمایہ کاروں کی تائید حاصل نہ ہو ایسے حالات میں میں عدم تشدد تحریک کی شرکاء کی خودکشی کی منزل یقینی ہے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مسلح جدوجہد کی بہ نسبت ریاست کسی بھی پر امن تحریک پر چڑھ دوڑنے کو ترجیح دیتی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کو اپنی مزاحمتی طریقہ کار کی کامیابی کیلئے متبادل طرز عمل کی ضرورت ہے۔
♦
2 Comments