کیا انصافی حکومت کو اسٹبلشمنٹ کے دباو کا سامنا ہے

ارشد بٹ

مقتدرہ قوتیں اپنے تیئں میاں نواز شریف کو انکی مبینہ گستاخیوں کی سزا دیے چکی۔ اب میاں کا جیل میں گزرتا ہر دن اسٹبلشمنٹ اور حکومت پر بھاری پڑتا جا رہا ہے۔ یہ الگ سوال کہ میاں کو جیل میں ڈال کر مقتدر حلقوں کے عزائم پورے ہوئے یا ادہورے رہ گئے۔ مگر سیاسی محاذ آرائی، وفاقی اور پنجاب حکومتوں کی زیرو کارکردگی اور دگرگوں معاشی حالات کے علاوہ ڈالر فراہم کرنے والے بیرونی دوستوں کے دباو نے رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ دو ہارٹ سرجری کے بعد بھی دل کے عارضہ میں مبتلا، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور گردے کے مریض ستر سالہ سابق وزیر اعظم کو کسی حیلے بہانے جیل سے نکالنے کی راہیں تلاش کی جارہی ہیں۔

کہاں سے کس قدر دباو اور کیسے حالات ہیں، جن کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کو ہر آئے دن چیخ چیخ کر میاں نواز یا کرپشن میں ملوث کسی بھی سیاسی لیڈر سے سمجھوتے کے خارج از امکان ہونے کی دہائی دینا پڑتی ہے۔ حکومتی وزرا کی اپوزیشن کے خلاف بلاوجہ ہرزہ سرائی کے پیچھے بھی کئی راز پنہاں ہوں گے۔ کوئی این آر او نہیں ہو گا کا شور ڈالتے ہوئے وزیراعظم اور وزرا کی غصہ بھری جھنجھلاہٹ اور پریشانی دیدنی ہوتی ہے۔

ن لیگ کے راہنما متعدد بار میاں نواز شریف کو رہائی دلانے کے لئے نام نہاد ڈیل کا انکار کر چکے ہیں۔ انکا مطالبہ ہے کہ نام نہاد ڈیل کرنے والے دوسرے فریق کا نام بتایا جائے۔ مگر اس سے متعلق وزیر اعظم، انکا کوئی ترجمان یا وزیر ایک لفظ ادا کرنے کی جرات نہیں کر پاتے۔ کوئی تو سبب ہو گا جسے عوام کے سامنے بیان کرتے ہوئے وزیر آعظم کی دلیری کے غبارے سے ہوا خارج ہو جاتی ہے۔

عمران خان بخوبی آگاہ ہیں کہ میاں کو جیل میں نہ انہوں نے ڈالا ہے اور نہ ہی میاں کی رہائی پر انہیں کوئی اختیار حاصل ہے۔ میاں کو جیل سے باہر وہی قوتیں نکالیں گی جنہوں نے انہیں کال کوٹھری تک پہنچایا۔ اقتدار کی بساط بچھانا اور الٹانا ان قوتوں کا پرانا کھیل ہے۔ ان قوتوں کی طاقت اور مہارت کا اندازہ وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ اور کون جانتا ہو گا۔ عمران خان اسٹبلشمنٹ کی آج کی سوچ اور ارادوں سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ طاقتور حلقوں کی خواہشات کا احترام کرنے کافن بھی وہ خوب جانتے ہیں۔

ملکی سیاسی اور عدالتی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو دیکھا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ  عدالتوں نے طاقتور ریاستی اداروں اور حکمرانوں کی خواہش اور سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین اور قانون کو ڈھالا۔ میاں نواز کے معاملات میں یہ روایت بدلنے والی نہیں۔ یہاں کس مقدمہ کا ذکر کیا جائے، کس کا نہ کیا جائے۔ بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں، تمیزالدین کیس، بھٹو کا عدالتی قتل، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کو عدالت عظمیٰ کا آئینی تحفظ دینا۔ ان کے علاوہ متعد عدالتی فیصلے جن سے اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ میں ہم آہنگی ظاہر ہوتی ہے۔

میاں نواز کو عدالتی فیصلے کے تحت جیل بھیجا گیا۔ ایک عدالتی فیصلہ ہی میاں کو رہائی دلائے گا اور پھر بیرون ملک جانا تو معمولی بات رہ جاتی ہے۔

جب میاں نواز شریف عدالتی فیصلے کے بعد جیل سے رہا ہوں گے، علاج کے لئے ملک سے باہر چلے جائیں گے تو انصافی حکومت نت نئی تاویلیں اور دلائل گھڑنے کی کوشش کرے گی۔ وزیر اعظم عدالتی حکم سے عدم اتفاق کرتے ہوئے حکم کی تعمیل میں سر تسلیم خم کرنے کا اعلان کریں گے۔

انصافی حکومت بڑی ڈھٹائی سے احتساب کے بلند بانگ دعووں پر قائم رہنے کے اعلانات دہراتی رہے گی۔ حکومت حسب عادت الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ مگر پس پردہ اسٹبلشمنٹ کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نیہں ہو گا۔ وقت کا تعین اسٹبلشمنٹ اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق کرے گی۔ اس وقت کے انتظار میں انصافی حکومت عوام کو دہوکا دینے کے لئے بے رحم احتساب کا نعرہ اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

کمزور انصافی حکومت کے پاس اسٹبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ عمران خان کا نام نہاد این آر او نہ کرنے کا شور و غوغا محض اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے اور دھو کا دینے کے ایک بھونڈے ہتھکنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔

♦ 


Comments are closed.