پاکستان کی عدالت عظمی نے ممیمو گیٹ کا معاملہ نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ریاست چاہے تو امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کر سکتی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج، جمہوریت اور آئین اتنے کمزور نہیں ہیں کہ محض ایک خط سے گھبرا جائیں۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اس وقت امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی طرف سے امریکی مسلح افواج کو مبینہ طور پر یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ پاکستان میں فوج اقتدار پر قبضہ کر لے گی۔
اس خط میں امریکی افواج کی قیادت سے پاکستانی افواج کی طرف سے اس وقت کی جمہوری حکومت کے خلاف ممکنہ کارروائی کو روکنے کے لیے مدد طلب کی گئی تھی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے میمو گیٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت شروع کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزار کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر درخواست گزار موجود نہیں ہیں تو ہم ان درخواستوں کی سماعت کیوں کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے علاوہ قومی وطن پارٹی بھی میمو گیٹ میں درخواست گزار تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس کو انتہائی محتاط طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ آٹھ سال پرانا معاملہ ہے اور اس معاملے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن بنایا گیا تھا جس نے اپنی سفارشات بھی دے دی تھیں۔
اُنھوں نے کہا کہ نہ تو اس وقت کی حکومت اقتدار میں ہے اور نہ ہی حسین حقانی امریکہ میں سفیر ہیں تو ڈر کس بات کا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے اور ملزم کے خلاف کارروائی کرنا ریاست کا اختیار ہے۔
میمو گیٹ کے معاملے پر اس وقت کی فوجی قیادت کی مشاورت سے حسین حقانی کو امریکہ سے واپس بلایا گیا تھا اور اُنھیں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر وزیر اعظم ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھا۔
ملزم حسین حقانی سپریم کورٹ کو یہ یقین دہانی کروا کر بیرون ملک چلے گئے تھے کہ جب بھی اُنھیں عدالت عظمیٰ طلب کرے گی تو وہ چار دن کے نوٹس پر پاکستان واپس آجائیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے متعدد بار طلب کرنے کے باوجود حسین حقانی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا جس کی سربراہی
نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کی تھی۔ اس عدالتی کمیشن نے اپنی سفارشات کو وفاقی حکومت کے حوالے کردیا تھا تاہم یہ سفارشات ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔
BBC
One Comment