ترکی پر پچھلی دو دہائیوں سے ایک مذہبی جماعت حکومت کر رہی ہے۔ طییپ ریجیپ (طیب رجب) ایردوان کی جماعت ”عدالت وے کالکنما پارتیسی (جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی) کو مصر کی اخوان المسلمین اور پاکستانی کی جماعت اسلامی کی ”ہمشیرہ جماعت“ کہا جاتا ہے۔ اس جماعت نے جہاں ترکی میں جمہوریت کا نام لیتے ہوئے جمہوریت کو جیسے پامال کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک متنازعہ فوجی بغاوت کا سہارا لیتے ہوئے ہر اس انسان کو قید کر دیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس پر حکومت مخالف ہونے کا ذرا سا بھی شک ہوا۔ اور اس سلسلے میں نہ کوئی فوجی بچا ہے اور نہ کوئی عام شہری۔ کوئی جج ہو، وکیل ہو، ڈاکٹر ہو نرس ہو، کالج یونیورسٹی کا پروفیسر ہو یا صحافی، ہر کوئی حکومت مخالفین کی صفائی کی مہم کا نشانہ بنا۔
موجودہ حکومت نے نے دوسرا اہم کام جو کیا ہے وہ مصطفیٰ کمال اتاترک کی ترکی کو دی ہوئی سیکولر شناخت کو بدل کر اسے ایک اسلامی ملک میں تبدیل کرنا ہے۔ نماز کے اوقات کا اعلان کرنے کے لیے ہمارے ملک کی طرح ایک وقت میں مختلف مساجد کے موذنوں کی اذان ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتی ، بلکہ دن میں پانچ بار لاؤڈ سپیکر پر اذان کی ریکارڈنگ بجائی جاتی ہے جو شہر کے ہر حصے میں سنائی دیتی ہے۔
ملک میں حجاب تو درکنار برقعے اور نقاب تک دکھائی دینے لگے ہیں۔ آنے والی نسلوں کو مزید مسلمان بنانے کے لیے صدر ایردوان نے یونیورسٹیوں کے ساتھ مساجد تعمیر کروائی ہیں تاکہ نئی نسل کا اسلام کے امن و محبت کے پیغام سے آشنا کیا جائے۔ ان مساجد کے آئمہ کی تنخواہیں ریاست ادا کرتی ہے۔ صدر ایردوان کے بقول ایسے اقدامات سے ترکی میں ”صالح نسل“ پیدا ہو گی۔ چنانچہ پچھلے سال ابتدائی جماعتوں کی نصابی کتابوں سے نظریہ ارتقاء کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
ایردوان کی ترکی میں اسلام کی سربلندی خواہشات اپنی جگہ، لیکن اس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے جن کی حصول کی اتنے سالوں سے کوشش کی جا رہی ہے۔ خصوصی طور پر ترکی کی نئی نسل صدر کی نیک خواہشات پر پانی پھیرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ جس کا اظہار پچھلے کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر ترک خواتین کے حجاب استعمال کرنے اور بعد میں اسے رد کرنے کی تصاویر سے دیکھا جا سکتا ہے، شائد ایسا ایرانی خواتین کی حجاب مخالف تحریک سے متاثر ہو کر کیا جا رہا ہے۔
ترکی میں اسلام کی جڑیں کمزور ہونے کی طرف ترکی کے ادارے پولستیر کوندا نامی ادارے نے اشارہ کیا ہے۔ جس کی بنیاد ان کا اپریل 2018ء میں کیا گیا ایک سروے ہے۔ اس ادارے نے پہلی بار 2005ء پھر 2008ء اور پھر آخری سروے 2018ء میں جاری کیا ہے۔ سروے کرنے والے ادارے کے بقول ”ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم زیادہ باریک بینی سے دیکھیں کہ ہمارے معاشرے کی اقدار کیا ہیں، اور مختلف سماجی پرتوں کے رہنے کے انداز کے علاوہ یہ سمجھ پائیں کہ ہمارے معاشرے میں پچھلے دس سالوں میں کیا تبدیل ہوا ہے اور کیا تبدیل نہیں ہوا“۔
اس سروے میں 5793 لوگوں بے حصہ لیا، سروے ٹیلیفون یا فارم پر دیئے گئے جوابات لکھ بھیجنے کے طریقے سے نہیں ہوا بلکہ اس مقصد کی خاطر لوگوں کے گھروں میں جا کر ان سے بالمشافہ بات چیت کی گئی ہے۔
سروے کے مطابق پچھلے دس سالوں میں ”صالحین“ کی تعداد تیرہ فیصد سے کم ہو کر دس فیصد رہ گئی ہے۔ جن لوگوں کو مذہب پسند کہا جا سکتا ہے ان کی تعداد پچپن فیصد سے کم ہو اکیاون فیصد ہو گئی ہے۔ جو لوگ خود کو مذہبی قدامت پرست کہلواتے تھے ان کی تعداد بتیس سے گھٹ کر پچیس فیصد ہو چکی ہے۔
رمضان میں روزہ رکھنے والوں کی تعدا میں بارہ فیصد کی کمی آ چکی ہو جو پہلے ستتر فیصد تھی اب کم ہو کر پینسٹھ فیصد ہو گئی ہے۔ جو ترک یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کو نکاح کے بغیر اکٹھا نہیں رہنا چاہیئے، گو ان کی تعداد اب بھی خاصی ہے لیکن وہ بھی پانچ فیصد گھٹ کر چوہتر فیصد ہو چکی ہے۔ مغربی ممالک کی مانند بغیر نکاح کے لڑکی اور لڑکے کا اکٹھا رہنا ترکی کے شہروں میں بڑھتا جا رہا ہے۔ اور ترکی جہاں دس سال پہلے الحاد کا نام و نشان نہ تھا، وہاں اب دو سے تین فیصد لوگ ملحد ہو چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترکی میں جہاں مذہب اپنی گرفت کھو رہا ہے، کیا وجہ ہے کہ وہاں کے لوگ ہر بار ایردوان کو منتخب کرتے ہیں جب کہ وہ جانتے ہیں کہ ایردوان کی سیاست میں مذہب کا بہت اہم کردار ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں ایردوان نے ترکی معیشت کی بہتری پر بہت زور دیا تھا اور ان کے شروع کے سالوں میں ترکی معاشی طور پر بہت مضبوط بھی ہوا۔ لیکن معیشت کی بہتری کے بعد کے سالوں میں حکومتی انتظامیہ نے معیشت کی بجائے مذہب پر زیادہ زور دینا شروع کر دیا۔ حکومت کی عوام پر ضرورت سے زیادہ مذہبیت لاگو کرنے کی خواہش اپنا الٹا اثر دکھانے لگی ہے۔
سنہ2017ء میں ایردوان نے اپنے استاد امام حاتپ (امام خطیب) کے زیر اثر چلنے والے سکولوں کی تقریب میں شرکت کی اور فخر سے کہا کہ اس وقت ان سکولوں میں تیرہ لاکھ بچے پڑھ رہے ہیں۔ ایردوان نے ان مدارس کی مذہبی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا” یہاں پر میئر، پارلیمان کےممبر، وزراء، وزیر اعظم حتیٰ کہ صدر پیدا ہوتے ہیں“۔
سرکاری طور پر مذہب کے اس بڑھاوے کا ذکر کرتے ہوئے بشریٰ جیبے جی نامی صحافی نے بتایا کہ وہ بچپن سے حجاب اوڑھتی رہی ہیں۔ کیونکہ انہیں بچپن سے ہی سکھایا گیا تھا کہ ایک ترک خاتون کے لیے بہترین اوڑھنی حجاب ہے۔ لیکن ہر وقت اُن کے ذہن میں حجاب کے متعلق سوال اٹھتے تھے۔ انہیں یاد ہے کہ کئی سال پہلے وہ مئی کے مہینے میں سکول سے واپس آ رہی تھیں تھیں تو انہیں بہت سخت گرمی لگی۔ ” مجھے یاد ہے کہ بہت سخت گرمی تھی، چنانچہ میں نے اپنی ماں کو کہا، ’شائد مجھے حجاب نہیں پہننا چاہیئے، تو میری ماں نے چلانا شروع کر دیا چنانچہ میں اسے پہنتی رہی“۔
جب بشریٰ کالج کی تعلیم کے لیے قونیہ منتقل ہوئی تو اس نے حجاب کا استعمال ترک کر دیا۔ جس کے نتیجے میں والدین نے اس سے بول چال ختم کر دی۔ بشریٰ کے بقول اس کے باپ نے دو سال تک اس سے بول چال بند رکھی، لیکن اب انہوں نے مجھے حجاب کے بغیر قبول کر لیا ہے۔
”مجھے اسلام سے نفرت نہیں ہے۔ میں حجاب کا استعمال ترک کرنے کی وجہ سے سیکولر خیالات کی حامی نہیں بنی۔ جب میں حجاب اوڑھا کرتی تھی تو تب بھی میں انہی خطوط پر سوچا کرتی تھی ۔ میرا یہ رد عمل حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہے جو ایک ایسی نئی قدامت پرست نسل تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کے میں خلاف ہوں“۔
بشریٰ کا خیال ہے کہ لوگوں کو صالح بنانے کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی۔ اس کےحجاب اتارنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ ایسا کرتے وقت اسے اکیلے پن کا احساس نہیں بلکہ اس کے جاننے والی دوسری خواتین نے بھی اس کے حجاب کے استعمال کو ترک کرنے کے فیصلے کو سراہا۔
”جب خواتین ایسے انداز میں یک جہتی کا مظاہرہ کرتی ہیں، تو میرے خیال میں یہ (حجاب ترک کرنے کا) عمل جاری رہے گا۔ اگر کسی خاتون کو حجاب اتارنے کی ہمت نہیں ہو رہئ تو جب وہ یہ دیکھے گی تو اس کو ایسا کرنے کے لیے حوصلہ ملے گا“۔
دیگر ترک تجزیہ نگار اس سروے کے نتائج کو ترک صدر کی صالح نسل پیدا کرنے کی کوششوں کا الٹا رد عمل کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ اس سروے کے مطابق ترکی میں زیادہ مذہبی تعلیم سے لوگوں کا مذہب سے لگاؤ بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے۔ چنانچہ جب حکومت لوگوں کو مذہب کے بہت زیادہ نزدیک لانا چاہ رہی ہے اور لوگ الٹا مذہب سے دور ہو رہے ہوں تو ایسے نتائج دیکھ کر حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ کسی بھی چیز کی زیادتی نفع کی بجائے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ استنبول کی کوچ یونیورسٹی کے شعبہ عالمی تعلقات و سیاسی سائنس کے پروفیسر مراد سومر کا کہنا ہے۔
”ملک میں مذہبیت کے فروغ کے لیے حکومت کی پرجوش اور مہنگی مہم اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کا سامنا کر رہی ہے۔ کیونکہ مذہب پر حکومتی کنٹرول اور نفاذ کی کوششوں نے مذہب اور لوگوں کے درمیان دوریاں پیدا کر دی ہیں۔ اگرچہ جمعہ کے نماز پڑھنے والوں میں تعداد میں کوئی خاص کمی نہیں آئی لیکن رمضان میں روزے رکھنے والوں کی تعداد میں بارہ فیصد کمی آ چکی ہے“۔
واشنگٹن میں قائم مشرق قریب پالیسی انسٹیٹیوٹ کے شعبہ ٹرکش ریسرچ پروگرام کے ڈائریکٹر سونیر چا اپتائے کے بقول مصطفیٰ کمال اتاترک
نے عثمانی ترکی کو سیکولر اور مغربی اقدار کے راستے کی جانب گامزن کیا تھا لیکن ایردوان نے مغربی اقدار پر عثمانی روایات اور سکیولرازم کے مقابلے میں پرہیز گاری کو اہمیت دی ہے۔ ایردوان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ”صالح نسل“ پیدا کرنا ہے جو ایک ”نئی تہذیب کو جنم دینے کا باعث بنے گی“۔
”میرے خیال میں ایردوان نے اقتدار اعلیٰ کو اپنے قدامت پرستانہ، مذہب سے محبت کرنے والی شخصیت کا رنگ دینا چاہا ہے، جس پر نوجوان ترک اپنا رد عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ چنانچہ ایردوان کا ترکی کو ایک مذہبی معاشرے کی جانب دھکیلنے کا عمل الٹے اثرات پیدا کر رہا ہے۔ میرے خیالات میں ایردوان کو شک تھا کہ وہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر ترکی کو مزید مذہبی بنائے گا لیکن اس کی ان پالیسیوں سے ترک الٹا مذہب سے دور ہو رہے ہیں“۔
♦