منیر سامی
گزشتہ ہفتہ سعودی ولی عہد محمد ؔ بن سلمان ، جنہیں ایم ۔بی۔ایس بھی کہا جاتا ہے پاکستان کے دورے پر بڑے طمطراق سے پاکستان آئے تھے۔ آنا تو انہیں دو دن کے لیے تھا۔لیکن کشمیر میں تازہ ترین دہشت گردی کے نتیجہ میں انہیں اپنا دورہ مختصر کرنا پڑا۔ شاید منسوخ ہی ہوجاتا۔ بہت ممکن ہے کہ انہیں بھارت نے جہاں انہیں پاکستان کے بعد جانا تھا یہ یقین دہانی کروادی ہو، کہ وہ جلد بازی میں پاکستان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔
ان کے آنے پر طرح طرح کی باتیں بن رہی ہیں، جن میں یہ بچگانہ تبصرے بھی ہیں کہ انہیں وزیرِ اعظم ہاوس میں کیوں ٹھہرایا گیا۔ کسی ملک کے سربراہ یا اس درجہ کے مہمان کو اسی طرح ٹھہرایا جانا ہوتا ہے۔ لیکن ایک اور مضحکہ بات جو تھی ، اور جس کی توقع عمران خان ہی سے کی جاسکتی ہے ، وہ یہ تھی کہ انہوں نے شہزادے کی گاڑی خود چلانے کی پیش کش کردی۔
یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ آج کل دنیا کے مہذب ممالک نے جمال خاشقجیؔ کے قتل کے بعد سعودی عرب اور ولی عہد سے اپنے تعلقات محتاط کیے ہوئے ہیں۔ صرف ان کا مائی باپ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپؔ کی صدارت میں ان کی حمایت کی ترکیبیں سوچتا رہتا ہے۔ مغربی ممالک کی اس سرد مہری کی وجہہ سے شہزادہ نے تعلقات ِ عامہ کی مہم میں مشرق کا رخ کیا ہے، اور سب سے پہلے اپنے مالی دباو کے تحت ،ہماری مسکینی اور مجبوری کا استحصال کرتے ہوئے ہمارے ہاں آنے کا اعلان کر دیا۔ بالخصوص ایسی صورت میں کہ جب انہوں نے ہمیں زرَ مبادلہ کا خسارہ پور ا کرنے کے لیے تین ارب ڈالر بھی عطا کیے تھے۔ یہ مالی امداد نہیں بلکہ ایک محدود مدت قرضہ ہے۔
پاکستان آنے کا ایک اہم مقصد پاکستان کو ایران کے خلاف اپنے حلیف کے طور پرپیش کرنا بھی تھا۔ اس ضمن میں سعودی عرب نے یمن اور ایران کے خلاف اتحاد میں پاکستان ور دیگر عرب ممالک کے ایک اتحاد میں پاکستان کے سابق جنرل راحیل ؔ شریف کو کمانڈر بھی تعینات کر رکھا ہے۔ وہ ہی اس دورے سے قبل حفاظتی اقدامات کے لیے پاکستان کے دورے پر بھی آئے تھے۔ان کی شہزادے اور عمران خان کے ساتھ اپنی وردی میں تصایر بھی کئی ان کہی کہانیاں سنا رہی تھیں۔
اس دورے میں سعودی وزیرِ خارجہ عادل ؔ الجبیر نے سارے سفارتی آداب اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی سرزمین پر اپنی پریس کانفرنس میں ایران کو دہشت گرد ملک قرار دیا اور سخت سست کہا۔ حیران کُن طور پر ایسا انہوں نے ہمارے وزیرِ خارجہ شاہ محمودؔ قریشی کے سامنے کیا ۔ شاہ محمود قریشی اس پر ششدر رہ گئے، اور ان کی زبان گویا گنگ ہو کر رہ گئی۔
اس سے پہلے ہماری وزارت داخلہ نے ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں حفاظتی اداروں کو شیعہ عمل پرستوں اور رائے سازوں پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ یہ ہدایت ایسی لا یعنی اور لاثانی تھی کہ خود عمران خان کو اس کے خلاف بیان دیناپڑ گیا۔ اس طرح کی ساری باتیں پاکستان کو ایک ذہنی غلام اور ایک بیرونی ملک کے زیرِ نگیں کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ لیکن غریب کی جورو بھلا کر بھی کیا سکتی ہے۔
شہزادے کی پاکستان آمد پر ایک غلغلہ یہ بھی تھا کہ وہ پاکستان میں تقریباً بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کریں گے، اور یوں پاکستان اپنا کشکول توڑ کر راتوں رات ایک متمول ملک بن جائے گا اور راوی چین لکھے لگا۔ عمران خان اور ان کہ حواریوں نے معصوم پاکستانیوں کو دن رات کشکول توڑنے کے خواب دکھائے تھے۔ سو اس دورے میں بعض دستاویزات بھی جاری ہوئیں، بالکل اس طرح جیسے کہ سی پیک کے چینی معاہدے تھے۔ لیکن اس پر بھی سعودی وزیرِ خارجہ نے یہ کہہ کر خاک ڈال دی کہ ابھی تو صرف ذہنی آہنگی بنائی جارہی ہے۔ سرمایہ کاری تو مفصل مالی اور تکنیکی چھان بین کے بعد کی جائے گی۔ گویا ہمیں وہ جادوئی نسخہ نہیں ملا جو ہمیں فی الفور ہاتھ پھیلانے سے بچا لیتا۔ سو اب ہم پھر آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ان سب باتوں سے بھی بڑھ کر قومی خودی اور خود داری کو پاش پاش کرنے والی وہ رقت آمیز درخواست تھی جو عمران خان نے اس عشایئے میں کی جس پر دنیا بھر کی نظر تھی۔ اس عشایئہ میں عمران خان نے اللہ کا واسطے دے کر سعودی شہزادے سے بر سرِ عام درخواست کی وہ سعودی جیلوں میں پڑے تین ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کواپنا بھائی سمجھ کر ان پر رحم کریں۔ اس ضمن میں انہوں نے بالخصوص کہا کہ ایسا کرنے سے اللہ بھی خوش ہو گا۔
سو سعودی شہزادے نےازراہِ ترحم ان میں سے تقریباً دو ہزار لوگوں کی رہائی کا حکم دے دیا، جس پر پاکستانیوں اور بالخصوص عمران خان کے حمایتیوں نے تالیا ں پیٹیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عمران خان کو یہ درخواست کر نے کا حق ہے۔ لیکن یہ درخواستیں بر سرِ عام نہیں بلکہ پسِ پردہ کی جاتی ہیں، پھر ان کا برسرِ عام اعلان کیا جاتا ہے۔ اس میں اللہ کے واسطے کشکول پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
جہاں تک عمران خان کے حمایتیوں کا ذکر ہے تو ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی بھی ملک سے مالی یا دیگر معاملات میں مدد مانگنے میں کوئی عار اور معذرت نہیں کرنا چاہیئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر عمران خان اور ان کے حواری بارہا کشکول شکنی کے دعوے نہیں کرتے تو شاید انہیں آج اعتراضات نہ سننے پڑتے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان مختلف ممالک سے اعانت حاصل کرتا رہا ہے لیکن اس کے کسی سربراہ نے اس طرح اپنی پگڑی غیرملکیوں کے قدموں میں نہیں رکھی۔ اب تو وہی لوگ اقبالؔ کی خودی بھول گئے ہیں جو شاہین ہونے کے دعوےدار تھے۔
♦