دو جہازوں کے مار گرائے جانے اور پائلٹوں کو زندہ گرفتار کئے جانے پر جشن منانے والے کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ، یہ جنگ ہے، ٹی وی پر پیش کیا جانے والا ڈرامہ نہیں، کہ جب چاہیں گے اپنی مرضی سے اس کا اینڈ (اختتام) کرلیں گے۔ کب کس کا داو لگ جائے کسی کو بھی معلوم نہیں۔ بارڈر کے ساتھ ساتھ شہروں اور گاوں میں بلیک آوٹ ہے، اہم تنصیبات اور کراچی کے ساحلی علاقوں میں ریڈ الرٹ ہے پروازیں معطّل ہیں، کاروبارِ زندگی تعطّل کا شکار ہے، چند روز میں اس سٹینڈ آف کا اثر معیشت پر پڑنا شروع ہو جائے گا، معیشت پہلے ہی دیوالیہ پن کا شکار ہے، جنگ لڑنا بچّوں کا کھیل نہیں۔ جنگ جب ایک بار شروع ہوجاتی ہے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اختتام کب ہوگا؟ پاکستان کو طویل عرصہ تک حالتِ جنگ میں نہیں رکھا جاسکتا۔
انڈیا ، یمن نہیں ہے، اور نہ ہی پاکستان، سعودی عرب ہے کہ جب چاہا نہتّے لوگوں پر بمباری کردی، جب چاہا شہر اور گاوں تباہ کردئے، یہ ہندوستان ہے، دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور ایٹمی طاقت ۔
دونوں جانب سے شور اٹھ رہا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، امن پسند لوگ زور دے رہے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کئے جائیں، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس موضوع پر بات کی جائے؟ کشمیر کے مسئلے پر یا دہشت گردی کی کارروائیوں پر؟
سارے فساد کی جڑ کشمیر ہے، انڈیا کا دعوی‘ ہے کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ (انٹیگرل پارٹ) ہے، جب کہ پاکستان کا دعوی‘ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ (جگلر کارڈ) ہے
انڈیا کا الزم ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو پالتا ہے اور دوسرے ملکوں میں اپنے پالتو دہشت گردوں کے زریعے پراکسی وار لڑتا ہے، انڈیا اپنے ملک میں پاکستان کی جانب سے نان اسٹیٹ ایکٹرز جیشِ محمّد اور لشکرِ طیبہ جیسی تنظیموں کے زریعے دہشت گردی کی کارروائیوں اور کشمیر میں آزادی پسندوں کی مالی و حربی تربیت اور دراندازی کے الزام عائد کرتا ہے۔جب کہ پاکستان کا الزام ہے کہ انڈیا کشمیر پر ناجائز قابض ہے اورکشمیریوں کی آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لئے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتا ہے.
دونوں ملک اس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ دونوں ملکوں نے جارحیت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے، کشمیر بٹوارے کے وقت ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی، جسے اس بات کا حق حاصل تھا کہ آزاد حیثیت میں رہے یا جس پڑوسی ملک کے ساتھ چاہے الحاق کرلے۔ مگر دنوں ملکوں نے کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کے پیشِ نظر کشمیر کو مفت کا مال سمجھا اور جارحیت کے ذریعے قبضہ کرنے کی کارروائی کی، چین نے بھی مفت کے مال پر اپنا ہاتھ صاف کیا اور کشمیر کے ایک حصّے پر ناجائز قابض ہوگیا۔ اب 72 سال گزرنے کے بعد تینوں ملک کشمیر کی تقدیر کے مالک بنے بیٹھے ہیں، کسی کو کشمیریوں کی مرضی اور خود مختاری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اگر انڈیا اور پاکستان سنجیدہ ہوں تو اپنی اپنی معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹنا بند کریں۔ اپنے اپنے ملکوں کے عوام کو غربت، جہالت اور پسماندگی سے نکالنا چاہتے ہوں تو دوں پر لازم ہے کہ فساد کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے کشمیری عوام کو حقِّ خود ارادی اور خودمختاری دیں۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز کا قلع قمع کریں، پراکسی جنگ سے اجتناب کریں۔ آر ایس ایس ، جیشِ محمّد، لشکرِ طیبہ جیسی انتہا پسند تنظیموں کا خاتمہ کریں، پراکسی جنگ سے اجتناب کریں۔
فساد کی جڑ کو ختم کئے بغیر کسی بھی قسم کے مزاکرات بے نتیجہ رہیں گے، اور خطّے میں کبھی بھی پائیدار امن قائم نہیں ہوسکے گا، عوام غربت کی چکّی میں یونہی پستے رہیں گے۔ اور کشمیر کے چولہے پر دونوں ملکوں کے مفاد پرست اپنے مفادات کی ہانڈی پکاتے رہیں گے۔
♦
One Comment