ایک مولوی صاحب کے پاس بہت سے بچے سیپارہ پڑھنے آیا کرتے تھے، ان میں سے ایک لڑکا مولوی صاحب کو بہت عزیز تھا۔ اکثر مولوی صاحب کو جب کہیں جانا ہوتا تو بچوں کو اس کی نگرانی میں دے کر چلے جاتے۔ دیگر بچے اس لڑکے سے سخت چڑتے اور اس کے ساتھ ہونے والی مہربانیوں کو دیکھ کر حسد کیا کرتے۔
ان میں سے ایک شاگرد نے مولوی صاحب کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش شروع کردی۔ وہ اپنے گھر سے اکثر مولوی صاحب کے لیے مرغی کا شوربہ اور سوجی کا حلوہ لے کر آنے لگا، جو ان مولوی صاحب کو بھی دیگر تمام مولویوں کی طرح بے حد پسند تھا۔ مولوی صاحب اپنے چہیتے شاگرد کو بعض مرتبہ کسی نہ کسی کام کے بہانے سے روک لیا کرتے تھے۔ پھر اگلے روز وہ چھٹی کرلیتا تھا۔
دوسرے روز آتا تو چپ چپ سا رہتا، تاہم کچھ دیر میں مولوی صاحب اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے اس کا موڈ بحال کردیتے تھے۔ ایک روز اس لڑکے نے مولوی صاحب سے رکنے کی درخواست کی، جو ان کا چہیتا بننے کا خواہشمند تھا اور اس کے لیے اپنے طور پر جتن بھی کرتا تھا۔ مولوی صاحب نے خشمگیں نظروں سے اس کو دیکھا اور پھر کہا ٹھیک ہے، تم رُک جاؤ ….!۔
اگلے کئی روز تک وہ نہ آیا۔ لگتا تھا کہ مولوی صاحب کو بھی کافی پریشانی لاحق ہے، لیکن اس کا اظہار نہیں کیا، بس اس کے بارے میں ایک دو مرتبہ دریافت کرکے خاموش ہوگئے۔ جب پورا ہفتہ گزر گیا تو انہوں نے اپنے چہیتے شاگرد سے کہا کہ جاؤ اس کے گھر جا کر معلوم کرو کہ آخر کیوں نہیں آرہا ہے، اس کی پڑھائی کا حرج ہورہا ہے۔
وہ چہیتا شاگرد اس لڑکے کے گھر پہنچا، اور مولوی صاحب کا پیغام کہہ سنایا۔ لڑکے کے والد گھر پر نہیں تھے۔ اس کی والدہ نے کہا کہ مولوی سے کہنا کہ تم نے اپنے ہاتھوں سے لگائے پودے کو ہی روند دیا ہے۔
اس نے جیسے سنا تھا مولوی صاحب سے جا کر کہہ دیا۔ چند لمحوں کے لیے تو مولوی صاحب کا رنگ اُڑ گیا، لیکن ایک نمبر کے گھاگ تھے، سنبھل گئے اور زیرلب بڑبڑاتے ہوئے بولے….ہم نے روندا نہیں ہے، اپنے ہاتھوں سے لگائے گئے پودے کا پھل چکھا ہے۔
یہ قصہ ہمیں کراچی یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کی بغل بچہ تنظیم جمعیت کی غنڈہ گردی دیکھ کر یاد آیا ہے، جو ایم کیو ایم کو زیرعتاب دیکھ کر رینجرز کے زیرِ سایہ اپنے پر پُرزے نکال رہی ہے اور ’’چہیتا شاگرد‘‘ بننے کی کوشش کررہی ہے۔
چہیتے شاگردوں کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا جاتا ہے، ان کو اس کا بھی خوب تجربہ ہے۔ بلکہ شاید یہ ’’اُن‘‘ کے ہاتھوں لگایا گیا ایسا پودا ہے، جسے پھل چکھوانے کا چسکا لگ گیا ہے۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ جمعیت کے غنڈوں نے کرکٹ کھیلنے پر کراچی یونیورسٹی کی طالبات کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ نواز شریف کے دور میں انہیں کافی آزادیاں میسر آجاتی ہیں۔
نواز شریف کے پچھلے دور میں جماعت اسلامی کے شاہین بچے اور عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑو بزرگوں نے عام شہریوں کا جینا دوبھر کردیا تھا۔ کراچی کے ساحل پر مذہبی غنڈے تیزاب کی بوتلیں لیے پھرا کرتے تھے اور کسی لڑکے کے ساتھ کوئی لڑکی بغیر حجاب کے دکھائی دیتی تو یہ اس کے چہرے کو تیزاب پھینک کر جھلسا دیا کرتے تھے۔
ہمیں یاد ہے کہ اس وقت کراچی شہر میں ن لیگ کے اقتدار کے دوران بڑی تعداد میں نوجوان دوشیزاؤں کے چہروں کو یوں وحشیانہ طریقے سے جلا دیا گیا۔
امید ہے کہ احباب میں سے کسی نہ کسی کے پاس اس حوالے سے کوئی یادداشت ضرور موجود ہوگی، گزارش ہے کہ اس کو تبصرے میں ضرور پیش کیجیے تا کہ کمزور حافظے کی حامل قوم کے افراد کے لیے بطور سند کام آوے۔
باتیں ہیں اُجلی اُجلی اور من اندر سے کالے ہیں
اس نگری کے سارے چہرے اپنے دیکھے بھالے ہیں
تم پر تو اے ہم نفسو! کچھ جبر نہیں، تم تو بولو
ہم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں اور زباں پر تالے ہیں
One Comment