بیرسٹرحمید باشانی
کرتار پوررہداری بلا شبہ سکھوں کے لیے ایک بڑی خوشخبری تھی۔ مگر کشمیریوں کے لیے یہ خبر بڑی اہم تھی۔ اس خبر کے اندر ان کے لیے ایک امید تھی۔ روشنی کی ایک کرن تھی۔ جو گھٹاٹوپ اندھیرے میں ان کو اس خبرمیں دکھائی دی تھی۔ کشمیری پنڈتوں اور ہندووں کے لیے ہی نہیں کشمیری مسلمانوں کے لےلیے بھی یہ بڑی خوش خبری تھی۔
اس خوش خبری کے پیچھے یہ آس چھپی تھی کہ سکھوں کے مذہبی جذبات کے احترام میں اگرحکومت پاکستان اور بھارت کرتار پور راہداری کھولنے پر راضی ہو سکتے ہیں توکشمیری مسلمانوں اور ہندووں کے کئی مقدس مذہبی مقامات لائن آف کنٹرول کے آرپار واقع ہیں ۔ یہ مقدس مقامات کشمیر میں مسلمانوں اور ہندواں کے لیے بھی رہداریوں کے کھولنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
ان مذہبی مقدس مقامات میں ایک اہم ترین مقام شاردا ہے۔ شاردا ہندووں کے قدیم ترین مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔ اور کشمیری پنڈتوں کے لیے یہ جگہ تو بہت ہی اہم ترین مقام ہے۔ لیکن کشمیری مسلمانوں کے لیے بھی کشمیر کا اہم تاریخی مقام ہے۔ یہ بر صغیر کے ان تین ابتدائی مقامات میں شامل ہے ، جہاں قدیم شاردا یو نیورسٹی تھی۔ چنانچہ کشمیری لوگوں کی زندگی میں بھی اس کی خاص اہمیت ہے۔ شاردا کا یہ قدیم مندر اندازا پانچ ہزار سال پہلے تعمیر کیا گیا۔ قدیم دور سے تعمیر کے کئی مراحل سے گزر کر دوسو سینتیس قبل مسیح میں اشوکا کے دور میں مکمل ہوا۔ تاہم اس کی تعمیر و تکمیل پر تاریخ کے مختلف بیانیے ہیں۔ کچھ لوگ اسے کوشان ایمپائر اور کچھ لالیتا دتا کے دور کی تعمیر قرار دیتے ہیں۔
شاردا کا یہ تاریخی مقام تین سوسال قبل مسیح سے لیکر تقسیم بر صغیر تک حکمرانوں اور رعایا میں یکساں طور پر مقبول رہا ہے۔ سال1030 میں مشہور مسلم تاریخ دان البیرونی نے کشمیر کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران شاردا اس کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا۔ البیرونی نے اس مندر کی شہرت اور چرچے کا اعتراف کرتے ہوئے اسے سومنات اور ملتان کے سن مندروں کے ہم پلہ قرار دیا۔ البیرونی کے مطابق جب اس نے اس مندر کا دورہ کیا تو اس کے اندر شاردا دیوی کا لکڑی کا بت تھا ، جس کی پوجا کی جاتی تھی۔
کشمیری تاریخ کی سب سے پہلی مستند کتاب راج ترنگنی میں شاردا کے مندر کی تاریخی اہمیت کی تفصیل ہے۔ اس کتاب میں پنڈت کلہن نے سال1148 میں اس مندر کی موجودگی اس کی یکساں مقبولیت پر لکھا۔
تاریخی طور پر اس مقام اور اس مندرسے جڑے کئی قصے مشہور ہیں، جن کی وجہ سے ہندو اورمسلمان دونوں اس میں برابر دلچسبی لیتے رہے ہیں۔ پندرہویں صدی کی ابتدا میں کشمیر کا ایک اہم ترین حکمران سلطان زین العابدین بڈشا گزارا ہے۔ بڈشا کے زمانے میں کشمیرامن، بھائی چارے اور محبت کا گہوارا تھا۔ ایک سیکولر حکمران ہونے کے باوجود خود سلطان زین العابدین بڈشاہ نے اس مندر میں غیر معمولی دلچسبی لی، اس اس میں ہونے والے معجزوں کا جائزہ لینے کے لیے اس مندر پر گیا۔ بڈشاہ کے دور میں اس مندر کو سرکاری امداد و تعاون حاصل رہا۔ سولہویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے زمانے میں ابو الفضل نے کشمیر میں اس جگہ کہ اہمیت اور مقبولیت پر لکھا۔
بعد ازاں سال 1846کے بعد جب جموں کاراجہ گلاب سنگھ ریاست جموں کشمیر کا مہاراجہ بنا توا اس نے سرکاری سرپرستی میں اس مندر کی مرمت و تزئین کی۔
کشمیریوں کے لیے یہ محض ایک مذہبی مقام ہی نہیں، بلکہ بلا تفریق مذہب ایک اہم تاریخی و تہذیبی ورثہ ہے۔ اس ورثے کی وجہ شاردا یونیورسٹی ہے۔ ایک وقت میں شاردا یونیورسٹی صرف جنوبی ایشیا میں ہی نہیں، بلکہ پورے بر اعطم ایشیا میں تعلیم کا ایک اہم ترین مرکز تھا۔ لوگ پوری دنیا سے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے، اور واپس جاکر دنیا بھر میں یہ علم پھیلاتے تھے۔ کشمیری جن کو اکثر جاہل ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے قدیم تاریخی شاردا یونیورسٹی کی اپنے دھرتی پر موجودگی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
کشمیر کے علاوہ چین، ایران ، مشرق وسطی اور یورپ کے قدیم لٹریچر میں اس یونیورسٹی کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا گیاہے۔ مشہور چینی سکالر زوان زینگ سن632میں اس یونیورسٹی میں آیا۔ یہ چینی سکالر دو سال تک یہاں قیام پذیررہا۔ اس نے یہاں کے اساتذہ اور طلبا کہ قابلیت کی تعریف کی۔
شاردا مندر لائن آف کنٹرول کے قریب واقع مقبوضہ کشمیر کی طرف سے آخری گاوں تارہ بال سے صرف آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ تقسیم سے پہلے پنڈت پورے ہندوستان سے یہاں درشن اورعبادت کے لیے آتے تھے۔ تقسیم کے فورا بعد سے پنڈت اور ہندو یہ آٹھ کلومیٹر راہدری کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
دوسری طرف یہ تاریخی مقام آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفراباد سے صرف ایک سو چالیس کلومیٹر دور ہے۔ اس مندر کے ساتھ مادہو متی تالاب بھی ہے، جس کا پانی ہندووں کے لے مقدس اہمیت رکھتا ہے۔ ریاست جموں کشمیر کے موسم گرما کے دارالحکومت سری نگر شہر سے یہ جگہ صرف ستر میل دور ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے جو شاردا کاریڈور کھولنے کا عندیہ دیاہے وہ صرف کشمیریوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے پنڈتوں اوربراہمنوں کے لیے ان کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے۔۔ اور یہ اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری سطح پر دشمنی، شک اور بد اعتمادی کی فضا ہے۔ یہ فضا تقسیم کے فورا بعد پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔
جب بر صغیر ایک سیاسی عمل میں دونوں اطراف کی مرضی اور رضامندی سے تقسیم ہوا تو پھر اس فضا کی ضرورت کیوں تھی۔ اس کی لاتعداد وجوہات ہیں، جن کا احاطہ کالم میں ممکن نہیں۔ تقسیم کے دوران وحشت و بربریت کا جو بازار گرم ہوا وہ دونوں اقوام کے درمیان دشمنی اور نفرت کے بیج بونے کے لییے کافی تھا۔ مگر کچھ حکمران طبقات نے اپنے چھوٹے موٹے مفادات کے لے لیے نفرت اور دشمنی کی اس فضا کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1965کی جنگ کے بعد یہ دشمنی باقاعدہ سرکاری اور مسلمہ حثییت اختیار کر گِئی۔ اس دشمنی سے دونوں ملکوں کے عوام نے بہت کچھ کھویا ۔
معاشی اور ثقافتی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور دوستی سے جو فائدے ممکن تھے، وہ اظہر من الشمس اور اپنی جگہ ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ زندہ انسانوں کی کچھ ثقافتی، مذہبی اور روحانی ضروریات بھی ہوتی ہیں، جن کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے لوگ خواہ وہ مسلمان ہوں، ہندو یا سکھ اور عیسائی ہوں سرحد کی دوسری طرف ان کی دچسبی اور روحانی ضروریات کے بے شمار مقامات ہیں۔ مذبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے لیے درجنوں خانقائیں، درگائیں اور دوسرے روحانی اور تاریخی مقامات ہیں، جن پر جانے کی کئی لوگوں کو حسرت رہی ہے۔ مذہبی اور روحانی سطح سے ہٹ کر عام علمی اور تاریخی دلچسبی کے بے شمار مقامات ہیں۔ اس علاقے کے مسللمانوں کی تاریخی کا ایک عظیم حصہ سرحدکے آر پار پار موجود ہے۔
پاکستان میں بسنے والے سکھوں اور ہندواں کے لیے بھی سرحد پار بے شمار مقامات ان کی روحانی تشفی کے لے موجود ہیں۔ یہی صور ت دوسری طرف بھی ہے۔ اس طرف رہنے والے کئی لوگوں کے لیے کرتار پور اور نانکانہ جیسے مذہبی مقدس مقامات سے لیکر مجنو ڈاڑو اور ہڑاپا تک دلچسبی کے کئی تاریخی مقامات بھی موجود ہیں۔
کشمیریوں کے لیے حضرت بل سمیت مذہبی دلچسبی کے کئی مقدس مقامات موجود ہیں۔ مگر کشمیر میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ کئی خاندان غیر فطری طور پر تقسیم کا شکار ہوئے۔ ایک ہی خاندان کے کچھ افراد ادھر کچھ ادھررہ گئے۔ یہ لوگ برسہابرس سے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترس گئے۔ کچھ لوگ پر شوردریاوں کے دونوں کناروں سے ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے اور بات کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
کرتار پور اور شاردا کاریڈور کو مذہبی اورانسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے۔ مگر انسانی ہمدردی کا سب سے بڑا معاملہ کچھ کشمیریوں کی غیر فطری تقسیم بھی ہے، جس میں خونی رشتے ایک دوسرے سے جد ا ہو گئے۔ ارباب اختیار کوعام کشمیری کے لیے میل میلاپ آر پارآنے جانے کی اجازت کے معا ملے پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غورکرنا چاہیے۔
♦