عمران خان ایک ضدی آدمی ہیں۔ آسانی سے ہمت ہارنے والے نہیں۔ کرکٹ کے کھیل کی باریکیوں کو سمجھنے والے کئی ماہرین کا ان کے کیئریئر کے ابتدائی دنوں میں خیال تھا کہ زمان پارک کا یہ منڈا اس میدان میں چل نہیں پائے گا۔ مستقل محنت اور لگن سے مگر وہ ایک طرح داربائولر ہی نہیں بلکہ ایک بہترین آل رائونڈر بھی ثابت ہوئے۔ ایک ایسے شاندار کھلاڑی جو اپنے ایک کرکٹر کزن ماجد خان کی طرح اپنی ذات میں گم نہیں بلکہ 11لڑکوں کی ٹیم کو قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ناممکن حالات میں بھی میچ جتوادیا کرتے تھے۔
اپنی شہرت وکرشمے کو عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد کینسر کے علاج کے لئے ایک جدید ترین ہسپتال بنانے کے وسائل جمع کرنے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ ناممکن کو ممکن بناکر بڑی عزت کمائی۔ نیک ارادوں سے خلقِ خدا کی بھلائی کے ادارے قائم کرنے کی اس صلاحیت کو جنرل ضیاء کے کے حوالے سے نفسیاتی جنگ کے ماہر گردانے جانے والے جنرل مجیب الرحمن جیسے افراد نے سیاست کی جانب دھکیل دیا۔
سنہ 1995ء کی آخری سہ ماہی میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے کئی رہائشیوں نے جو حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کے حوالے سے حتمی قوت رکھنے کی شہرت رکھنے والے اداروں سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سٹاف سلوشن کے ذریعے ہماری سیاست کے لئے سکرپٹ لکھنے کی لت میں مبتلا تھے، عمران خان کے گرد جمع ہوکر انہیں لانچ کردیا۔ عمران خان کی سادہ طبیعت ان کے بہکاوے میں آگئی۔
سنہ 1997ء کے انتخابات مکمل ہوجانے کے بعد عمران خان کے پاس بہت وقت تھا کہ سیاسی میدان میں کود پڑنے کے بعد وہ اس کھیل کی باریکیوں کوبھی اسی لگن سے سمجھنے کی کوشش کرتے جو انہوں نے کرکٹ کے حوالے سے اپنائی تھی۔ افسوس ایسا ہو نہ پایا۔ صرف اپنی ضدی طبیعت کی بنیاد پر وہ اس میدان میں ڈٹے رہے۔ انتہائی کڑے حالات میں بھی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا ایک مستحسن رویہ ہے۔
خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے مگر ایک جداگانہ رویہ درکار ہوتا ہے۔ اقبال جیسے بے پناہ شاعر کے پاس بھی برصغیر کے مسلمانو ںکی ترقی اور بحالی کے کئی خواب تھے۔ وہ مگر خوب جانتے تھے کہ سرسید کے زمانے سے برصغیر کے پڑھے لکھے افراد کے دلوں میں پلتی خواہشوں کو سیاسی عمل کے ذریعے صرف قائد اعظم ہی کوئی عملی صورت دے سکتے ہیں۔ قائد اعظم اگرچہ خود مایوس ہوچکے تھے مگر اقبال انہیں کئی خطوط لکھ کر وطن لوٹ آنے پر مائل کرتے رہے۔
عمران خان کا المیہ یہ رہا کہ انہیں چاہنے والے تو بہت ملے مگر سیاسی عمل کو اس پیچیدہ ہنر کے قواعد کے مطابق چلانے کی مہارت فراہم نہ کرپائے۔ ان کے ہاں چاہنے والوں کے ساتھ، ہجوم ان لوگوں کا بھی جمع ہونا شروع ہوگیا جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مختلف برانڈز کی مارکیٹنگ کے حوالے سے معروف تھے۔ عمران خان ان کی مہارتوں کی وجہ سے سیاست دان نہیں ایک برانڈ بنادئیے گئے۔ برانڈزکو فروغ دینے کے لئے ایجاد کردہ سوشل میڈیا پر رونق لگ گئی اور پھر آگیامئی 2011۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ سال اس لئے بہت اہم ہے کہ اس برس ہمارے ہاں مذہب کے نام پر متعارف کردہ انتہاء پسندی اپنے عروج پر تھی۔ امریکہ اور اس کے حواری اس عروج کے بارے میں بہت پریشان تھے۔ عوام کو موبلائز کرنے کی سکت رکھنے والی نام نہاد سیاسی جماعتوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ دہشت پھیلاتے اس جنون کا مقابلہ کیسے کریں۔ ہماری ریاست کے ابدی اداروں کی بھی اپنی سٹر یٹیجک ترجیحات تھیں۔ انہیں گڈ اور بیڈ میں تخصیص کرنا مشکل ہورہا تھا۔ پریشان ہوئے لوگوں کے سامنے چہرے مگر صرف سیاسی قیادت کے تھے۔ سارا غصہ ان کے خلاف جمع ہوتا رہا اور بالآخر لاہور کے اکتوبر والے جلسے میں بہت گونج کے ساتھ پھٹ پڑا۔ چاروں طرف عمران خان–عمران خان ہوگیا۔ ’’باریاں‘‘ لیتے سیاست دانوں کے مقابلے میں ایک توانا ’’نیا چہرہ‘‘ سامنے آگیا۔ ’’نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر کے امکانات روشن ہوگئے۔
سنہ 2013ء کے انتخابات کے دور ن یہ امکانات ٹھوس حوالوں سے ہمارے سامنے واضح ہوکر نظر آناشروع ہوگئے تھے۔ عمران خان مگر یہ امکانات پوری طرح دیکھ نہ پائے۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس بات پر قائل ہوگئے کہ 2013ء کے انتخابات ان سے’’چرائے‘‘ گئے ہیں۔ اس مبینہ چوری کے خلاف ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے کے ساتھ ڈٹ گئے۔ ان کے 126دنوں تک پھیلے دھرنے کی وجہ سے ’’گو نواز گو‘‘ تو نہ ہوا۔ پورے سیاسی عمل کی اہمیت مگر خاک میں مل گئی۔ اس وجہ سے سیاستدانوں کی مجموعی ساکھ کو جو دھچکا لگااس سے پیدا ہونے والے خلاء کو غیر سیاسی قوتوں نے بڑی مہارت سے پُر کردیا۔عمران خان صرف ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیںگے‘‘ والی کیفیت ہی سے لطف اٹھاتے رہ گئے۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ کے ایک کردار ہوا کرتے تھے۔ علامہ مشرقی، ان کی کرشماتی شخصیت نے ن۔م۔ راشد جیسے شاعر کوبھی اپنے کندھے پر بیلچہ لٹکا کر چپ–راست، چپ–راست کرنے والے خاکساروں کے ہجوم میں شامل ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ کئی برسوں تک اس تحریک کے جنون کا بہت شہرہ رہا۔ علامہ مشرقی کا مقدر مگر بالآخر تنہائی اور اداسی ہی بنا۔
ایک مجلسِ احرار بھی ہوا کرتی تھی۔ عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے مقرر اس کے جلسوں میں عشاء کی نماز کے بعد خطاب شروع کرتے تو حاضرین جلسہ فجر کی اذان تک ہلنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ ایک تحریک مولانا ظفر علی خان جیسے لوگوں نے مسجد شہید گنج کے دفاع میں نیلی پوش رضا کاروں کے ذریعے بھی چلائی تھی۔ علامہ مشرقی، مجلس احرار اور مولانا ظفر علی خان سے متعلق مشہور ہوئی طولانیاں بہت پرانی محسوس ہوں تو صرف 1977ء کی نوستاروں والی تحریک یاد کرلیں اور تھوڑا غور کریں کہ اصغر خان اور ان کی تحریکِ استقلال کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
میں بہت خلوص کے ساتھ عمران خان کو اصغر خان اور تحریک انصاف کو تحریک استقلال والے انجام کے ساتھ دو چار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ذاتی حوالوں سے عمران خان پر وقت اس سمے کافی کٹھن ہے۔ وہ مگر ایک باہمت آدمی ہیں۔ اپنے اندر موجود بے پناہ لگن کی شدت کو پوری طرح روبہ کار لاتے ہوئے طویل مراقبے میںچلے جائیں۔ ان کا برانڈ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے اور چاہنے والوں کا ہجوم بھی ابھی چھٹا نہیں۔
چودھری سرور جیسے سازشیوں کو یہ وقت مائنس عمران جیسے قطعی ناقابلِ عمل فارمولے آزمانے کے لئے مہیا نہ کریں۔ بہت دیانت داری کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں۔ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ بھرپور مکالمے کے بعد برانڈ کی طے شدہ حدود سے بالاتر ہوکر سیاسی عمل کو سیاسی انداز میں خود کمانڈ اینڈ کنٹرول سنبھال کر بحال کرنے کے راستے ڈھونڈیں۔ بنی گالہ میں درباریوں کی طرح موجود نورتنوں کو انہوں نے اب کافی بھگت لیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایک بار پھر اکیلے ہی آگے بڑھیں۔ قافلہ یقینا بن جائے گا۔ جوش اور جذبے سے معمور قافلہ۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور