عظمیٰ اوشو
میرا دشمن ہے میرا بدن ۔ یہ حقیقتاً ایک تلخ سچائی ہے کہ عورت کا بدن ہی اکثر اس کا دشمن بن جاتا ہے ۔مہذ ب سے مہذ ب معاشروں میں عورت زبر جنسی( جنسی ہراسیت) کے خوف کے ساتھ زندہ رہتی ہے کہیں یہ خوف کم ہوتاہے تو کہیں زیادہ ،ایسے معاشروں میں خوف کا گراف نیچا ہوتا ہے جہاں کافی حد تک عورت کو محض ایک بدن نہیں ایک مکمل انسان سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسے معاشروں میں جہاں طاقت کا منبع صرف مرد ہی ٹھہرتا ہے اور عورت محکوم سمجھی جاتی ہے وہاں یہ خوف زیادہ ہوتا ہے ۔
مرد اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کبھی پانچ سالہ بچی تو کبھی کفن میں لیپٹی عورت تو کبھی گھر سے ڈاکٹر بننے کے خواب لیے نکلنے والی لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے ۔پاکستان بھی ان بدنصیب ممالک میں سے ہے جس میں زبر جنسی (جنسی طور پر ہراساں کرنے) کے واقعات شرمناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد ایک عورت زبر جنسی کا شکار ہوتی ہے ۔لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک امرپاکستان میں سماجی رویے ہیں جن کے خوف سے زیادہ تر زبر جنسی کے کیس رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے ، اور جو رجسٹرڈہوتے اس میں متاثرہ عورت کو انصاف بہت کم ملتاہے کیونکہ انصاف دینے والے اسی نظام کے تابع ہوتے ہیں جو عورت کو ہی قصور وار سمجھتا ہے ۔
اور پھر مرے کو مارے شاہ مدار کا نظام پولیس اسٹیشن آ نے والی متاثرہ عورت کو ایک اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر استحصال کا نہ روکنے والا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ زبر جنسی کا شکار ہونے والی عورت کی عمر کوئی بھی ہو گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہو یا گھر کے اندر رہتی ہو کو ہی قصوروار سمجھا جاتا ہے اور سر توڑ کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسی دلیل لائی جائے کہ جرم کرنے والا تو پارسا کہلائے اور ظلم کاشکار ہو نے والی مجرم۔
اور معاشرے کی اس بے رحمی کی وجہ سے سے زبر جنسی کرنے والے مردوں کا حوصلہ بڑھ تا چلا گیا اور زبر جنسی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔مگر پدرسری نظام کے محافظ اس بات کو ماننے سے ہی انکاری ہیں کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں عورتیں زبر جنسی کاشکار ہوتی ہیں یا پھر اس کا خوف لیے زندگی گزارتی ہیں ۔ان سماجی رویوں کو بدلنے کے لیے اور سدھار کا عزم رکھنے والی خواتین نے ناری کے نام سے ایک تحریک شروع کی جس کی سربراہی ڈاکٹر فوزیہ سعید کر رہی ہیں ۔
اس تحریک کے پلیٹ فارم سے زبر جنسی کے خلاف ایک محاز بنایا گیا جس کو انکار زبر جنسی سے کا نام دیا گیا ہے ،جس کا مقصد ان سماجی رویوں کو بدلنا ہے جو زبر جنسی کرنے والے مرد کو توتحفظ دے رہے ہیں اور عورت کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ میرا بدن ہی میرا دشمن ۔اس تحریک کا آغاز شعیب منصورکی دستاویزی فلم ہم ایسے کیوں ہیں سے کیا گیا جس میں زبر جنسی جسے احساس معاملے پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
اس تحریک میں شامل خواتین کئی برسوں سے عورتوں کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک اور جبر و زیادتی کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں ۔ناری تحریک کے ممبران اس بات سے پر متفق ہیں کہ زبر جنسی کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ان متھ (فرسودہ نظریوں)کو توڑا جائے جو یہ گھنا ونا عمل کرنے والے مردوں کو مدد دیتی ہیں۔ مثلاًعورت نے کپڑے ایسے پہنے تھے کہ مرد کے جذبات بھڑک گئے تو جذبات سے عاری تو عورت بھی نہیں مگر عورت تو کسی مرد سے زبر جنسی نہیں کرتی ،عورت دیر تک گھر سے باہر رہتی ہے تو وہ تو مرد بھی رہتے ہیں ۔
پھر کہا جاتا ہے وہ تو قہقہے بہت لگاتی تھی تو قہقہے تو مرد بھی لگاتے ہیں ،ا ور اس کے علاوہ مردوں کی غلطیوں کی سزا بھی تو عورت کو ہی دی جاتی ہے۔ زمین کا جھگڑا ہو یا پسند کی شادی کا معاملہ بدلہ لینے کے لیے مخالف کی بہن تو کبھی بیٹی اور کبھی بیوی کے ساتھ زبر جنسی کر کے دشمنی کا بدلہ چکایا جاتا ہے ۔
اس سماجی برائی کو روکنے کے لیے یقیناًایک تحریک کی ضرورت تھی اس تحریک میں عورتوں کے ساتھ ساتھ مرد بھی شامل ہیں جو کہ انتہائی حوصلہ افزاء بات ہے ایسے مرد اس تحریک کا حصہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ برے مردوں کی وجہ سے تمام مردوں پر کلنک لگا ہے جسے دھونے کی ضرورت ہے ۔ایسے مرد وں کی حوصلہ افزائی سے یہ تحریک آگے بڑھے گی اور ایک ایسا سماج وجود میں آئے گا جہاں عورت یہ نہیں سوچے گی یہ بدن ہے میرا دشمن ۔
♠
One Comment