مسعود ملک
کون کہتا ہے چین ایک اشتراکی ملک ہے ، چین نے وہ تمام اصول اپنا لیے ہیں جو ایک آزاد معیشت کا خاصا ہیں۔ لیکن سماجی طور پر کمیونسٹ معاشرے کی پابندیاں عائد ہیں۔ چین میں پرائیویٹ اونرشپ کی اجازت ہے آپ اپنا کاروبار کریں اپنا کارخانہ لگائیں ۔ اپنی جائیداد بنائیں اپنا ذاتی گھر بنائیں۔ یہ سب کیپٹلسٹ اکانومی میں ہوتا ہے۔ سوشلزم یا کمیونزم میں ریاست تمام ریسورسز کی مالک ہوتی ہے ، فیکٹریاں ، کارخانے، کھیت، کاروبار، دکانیں گھر وغیرہ سب کچھ ریاست کی ملکیت ہوتا ہے۔
ریاست اپنی صوابدید پر لوگوں کو ریاست کے ریسورسز بانٹتی ہے جب تک ریاست کی مرضی ہوتی ہے آپ اس گھر میں رہ سکتے ہیں ریاست جب چاہے آپ کو گھر سے نکال سکتی ہے ۔ سوشلزم یا کمیونزم میں ذاتی ملکیت کا تصور نہیں ہوتا نہ آپ کا گھر ذاتی، نہ آپ کی دوکان ذاتی، نہ آپ کی کار ذاتی، بس آپ کے کپڑے، جوتے اور گھر کا چھوٹا موٹا سامان ذاتی ہوتا ہے شائد ایک عدد سائیکل اور موٹر سائیکل ذاتی ملکیت میں رکھنے کی اجازت ہو یہ سب کچھ حکومت کی صوابدید اور مرضی پر منحصر ہے ۔
حقیقت میں سب کچھ ہی ریاست کا حکومت کا ہوتا ہے۔ اسی لئے میں اسے بدتر غلامی سے تشبیہ دیتا ہوں۔ ایک غلام کے پاس بھی ذاتی طور پر کچھ نہیں ہوتا غلام کا مالک اگر چاہے تو اپنے غلام کے کپڑے بھی اتروا کر اسے جب چاہے ننگا کر سکتا ہے یہی کچھ ایک سوشلسٹ اور کمیونسٹ حکومت کرتی ہے اگر آپ اشتراکی گماشتوں اور غنڈوں کو سپورٹ نہیں کرتے ان کی مخالفت کرتے ہیں تو اس جرم میں آپ سے سب کچھ چھین لیا جاتا ہے آپ پر ظلم تشدد کیا جاتا ہے اور عام طور پر آپ کو ریاست کا دشمن سمجھ کر ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جاتا ہے۔
یہی کچھ سٹالن نے لاکھوں روسیوں کے ساتھ کیا جو اپنی زمینیں اپنا کاروبار اپنی زندگی کی محنت اور کمائی ریاست اور ان اشتراکی مفت خوروں کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے انھیں سب کو اکھٹا کر کے گولیاں مار دی جاتی تھیں اور سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لاشیں ایک ہی گڑھے میں دبا دیا جاتا تھا یہی کچھ ماؤ نے چین میں کیا۔ یہی کچھ ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا ۔
یہ مفت خورے سرمایہ داری کے دشمن ہیں جبکہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے سرمایہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری ہوتی ہے تبھی کوئی کارخانہ، کوئی فیکٹری یا کوئی کاروبار کھلتا ہے۔ آپ کے پاس سرمایا نہ ہو تو آپ ایک چھوٹی دوکان بھی نہیں کھول سکتے۔اشتراکی نظام میں سب سرما یہ حکومت اور ریاست کی ملکیت میں آ جاتا ہے۔ تمام مالیاتی ادارے اور بینک ریاست کی ملکیت میں ہوتے ہیں۔
اور پھر ریاست کے یہ غنڈے اپنی مرضی سے سرمائے کا استعمال کرتے ہیں ان ریاستی لٹیروں اور مفت خوروں کو نہ بزنس کرنے کا تجربہ ہوتا ہے نہ ہی کاروبار، کارخانے چلانے کی مہارت ، علم اور ہنر ہوتا ہے جسکی وجہ سے نہ ان سے حکومت چلتی ہے نہ کاروبار نہ ہی کارخانے ۔ پاکستان میں کراچی کی سٹیل مل کا حال آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان کے ریلوے نظام کا حال آپ کے سامنے ہے۔پاکستان کے پی آئی اے کا حال آپ کے سامنے ہے ایسی ہزاروں مثالیں ہیں۔
ریاست کی ملکیت میں جتنے سکول اور ہسپتال چلتے ہیں آپ وہاں جا کر ان کی حالت دیکھیں ، ہر چیز ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتی ہے ، ایسے سکولوں میں بیٹھنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ایسے ہسپتالوں سے علاج کروانا اپنی بیماری کو بڑھانے کے مترادف ہے
جب کوئ بزنس پرائیویٹ اونرشپ میں آ جاتا ہے تو ذمہ داری کا احساس بڑھ جاتا ہے ۔ کیونکہ بزنس کے مالک کا پیسہ اور سرمایا ہوتا ہے اس لئے مالک کو احساس ہوتا ہے کہ اسکا سرمایہ ڈوب نہ جاے اسکی ساری عمر کی محنت پر پانی نہ پھر جائے۔
اس لئے وہ محنت کرتا ہے ہر چیز پر نظر رکھتا ہے تاکہ اس کا بزنس ترقی کرے کیونکہ اسی صورت میں اسے منافع مل سکتا ہے اور جب ایک بزنس منافع میں چلتا ہے تو اس بزنس میں کام کرنے والے بھی خوش ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح نوکریاں پیدا ہوتی ہیں ، لوگوں کو ترقیاں ملتی ہیں لوگوں کے پاس سیونگ کی طاقت آتی ہے اور ایسے ہزاروں لوگ ہوتے ہیں جو اپنی محنت سے کی سال نوکری کر کے اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنا چھوٹا موٹا بزنس شروع کر سکیں اس طرح وہ ایک ملازم سے آجر بن جاتے ہیں۔
کیپٹلسٹ نظام میں ہر کسی کو ترقی کے لامحدود مواقع ملتے ہیں ہزاروں لاکھوں لوگ غربت سے نکل کر خوشحالی کا سفر تے کرتے ہیں آپ ساری عمر حکومت یا اجر کے غلام نہیں رہتے یہی فرق ہے کیپیٹلزم اور سوشلزم میں اور آج چین اسی وجہ سے ترقی کی طرف گامزن ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اشتراکیت کو تو ترک کردیا ہے لیکن اپنی ڈکٹیٹر شپ کو بدستور قائم رکھا ہوا ہے اس لیے اسے کیپٹلزم کی بگڑی ہوئی شکل کہہ سکتے ہیں ۔ جہاں آپ کو کاروبار کرنے اور منافع کمانے کی تو آزادی ہے لیکن سوچنے اور غور و فکر کی آزادی نہیں ہے ۔ کمیونسٹ پارٹی پالیسی کے نام پر جوحکم نامہ جاری کرتی ہے اس پر چوں و چراں کی کوئی گنجائش نہیں ۔آزادی اظہار رائے پر سخت پابندیاں عائد ہیں اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ملیں گی۔
♦