کابل میں طالبان کے ایک خود کش بم حملے کے بعد مشتعل شہریوں نے سخت سکیورٹی میں واقع اس بین لاقوامی کمپاؤنڈ (گرین ویلیج) پر حملہ کر دیا، جہاں غیرملکی مقیم تھے۔ تقریبا 400 غیر ملکیوں کو ہنگامی حالات میں وہاں سے نکلنا پڑا۔
گزشتہ رات افغان دارالحکومت کابل میں طالبان کے حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعدد بڑھ کر سولہ ہو گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد تقریبا ایک سو بیس بتائی جا رہی ہے۔ تمام ہلاک شدگان عام شہری تھے۔
اس حملے کے بعد بہت سے مشتعل شہری دیوار پھلانگ کر اُس بین الاقوامی کمپاؤنڈ میں داخل ہو گئے، جسے نشانہ بنانے کے لیے اکثر خونریز حملے کیے جاتے ہیں۔ مشتعل شہریوں نے اس کمپاؤنڈ کے ایک حصے کو آگ بھی لگا دی۔ کابل کے ‘گرین ولیج‘ نامی اس کمپاؤنڈ میں کئی بین الاقوامی تنظیموں کے دفاتر اور متعدد گیسٹ ہاؤس بھی ہیں۔ افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق اس بم حملے کے بعد ‘گرین ولیج‘ میں موجود چار سو کے قریب غیر ملکیوں کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا گیا۔
گزشتہ شب ہونے والا حملہ بین الاقوامی کمپاؤنڈ کی بیرونی دیوار کے قریب ہوا تھا اور اس کی زد میں صرف عام شہریوں کے گھر ہی آئے تھے۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق سکیورٹی فورسز نے پانچ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا ہے جبکہ خودکش حملہ آور بارود سے بھرے ایک ٹریکٹر پر سوار تھا۔ اس حملے سے کمپاؤنڈ کی مغربی دیوار کو نقصان پہنچا ہے۔
دریں اثناء کابل کے شہری آج بھی اس بین الاقوامی کمپاؤنڈ کے سامنے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے ایک حصے کو گزشتہ شب آگ لگا دی گئی تھی۔ مقامی شہریوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بین الاقوامی اداروں اور غیرملکیوں کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے تاکہ عام شہری کسی بم حملے کا نشانہ نہ بنیں۔ رواں برس کے آغاز سے صرف دارالحکومت کابل میں اٹھارہ خونریز حملے کیے جا چکے ہیں اور اس شہر کو افغانستان کا سب سے محفوظ ترین شہر قرار دیا جاتا ہے۔
انتہائی سخت سکیورٹی کے حصار میں واقع اس بین الاقوامی کمپاؤنڈ کو جنوری میں بھی اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا، جب امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد دارالحکومت کے دورے پر تھے۔ گزشتہ روز بھی یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب چند گھنٹے پہلے ہی انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کو طالبان کے ساتھ ہونے والے ممکنہ معاہدے کا مسودہ پیش کیا تھا۔
یہ مسودہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نو راؤنڈ مکمل کرنے کے بعد تیار کیا گیا ہے لیکن اس کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منظوری ابھی ضروری ہے۔ اس مسودے کے تحت امریکا ابتدائی پانچ ماہ میں اپنے پانچ ہزار فوجی افغانستان سے نکال لے گا۔ اس حملے کے بعد زلمے خلیل زاد کا تو کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن افغان صدر اشرف غنی نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
DW