پاکستانی فوج نے بھارت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کشمیر میں ’ریاستی دہشت گردی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان بھارت کے کسی بھی اقدام کا پوری قوت کے ساتھ جواب دے گا۔
جبکہ بلوچ جدوجہد کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستانی ریاست بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان آرمی نے 27 مارچ 1948 کو برطانوی راج سے نوآزاد بلوچستان پر چڑھائی کرکے نہ صرف ہماری آزادی سلب کرلی بلکہ بلوچ نسل کشی کا آغاز کردیا جو کہ آج تک جاری ہے۔ اور اس میں وقت کے ساتھ شدت آرہی ہے۔ اس وقت تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قتل کئے جا چکے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی فوج کے زندانوں میں قید ہیں۔ لاکھوں لوگ جبری نقل مکانی کا شکار ہو کر دربدر ہیں۔
پاکستانی فوج کے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ان کی فوج ‘ہر قربانی‘ کے لیے تیار ہے اور کسی بھی صورت میں کشمیری عوام کی حمایت کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ نے ان خیالات کا اظہار یوم دفاع پاکستان کے موقع پر منعقدہ خصوصی تقریب میں کیا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج متنازعہ علاقے کی کشمیری عوام کے حصول حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ باجوہ کے مطابق کشمیری عوام حق خود ارادیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان بھارت کے کسی بھی اقدام کا پوری قوت کے ساتھ جواب دے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی بھارتی ایکشن کے جواب میں سامنے آنے والے تباہ کن نتائج کی ذمہ داری عالمی برادری پر عائد ہو گی۔
پاکستانی وزیراعظم نے بیان میں یہ بھی کہا کہ دنیا پر واضح کر دیا گیا ہے کہ پاکستان جنگ کا خواہشمند نہیں ہے لیکن اگر پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو چیلنج کیا گیا تو پھر خاموش نہیں بیٹھا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق پاکستان دشمن کو پوری قوت سے جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ریاستی حکومت نے لینڈ لائن ٹیلیفون سروس بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب ایک مہینے کے کمیونیکیشن بلیک آؤٹ اور سکیورٹی کریک ڈاؤن کے بعد بحال کی گئی ٹیلیفون سروس ابھی پوری طرح فعال نہیں ہوئی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق بظاہر لینڈ لائن بحال کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رابطے بحال کرنے سے ابھی بھی قاصر ہیں۔
بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر میں ہر قسم کے ٹیلی فونک رابطے پانچ اگست کو معطل کر دیے تھے۔ یہ کمیونیکشن بندش کشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کے دستوری اقدامات کے وقت عمل میں لائی گئی تھی۔
DW/Web News