سویڈن کا نام ہم پاکستانیوں کے لیے اجنبی نہیں رہا۔ یہ سکینڈے نیویا کا وہ ملک ہے جس کے متعلق اچھے خاصے پڑھے لکھے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اس ریاست کی فلاح کی بنیا د ”عمر لاء“ پر رکھی گئی ہے۔ ایسا ہی بیان عمران خان نے بھی کچھ عرصہ پہلے دیا تھا۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے بائیں بازو کے ایک پاکستانی دانشور فاروق سلہریا نے ایک سویڈش تاریخ دان ڈاکٹر بلوم کویست کو انٹرویو کیا تھا۔بلوم کویست کے بقول یورپ کا عرب دنیا سے کبھی تعلق نہیں رہا، لہذا وہ عمر یا اُس کے لاء سے بے خبر ہیں۔ سویڈن کی فلاحی ریاست سویڈن کے محنت کشوں کی ٹریڈ یونین کے تحت جدوجہد کرنے سے وجود میں آئی ہے۔
بہر حال اسی سویڈن کو سامنے رکھ کر عمران خان مدینہ کی ریاست بنانے کا دعوے دار ہے۔ لیکن سویڈن اب وہ ملک نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ اب یہ الفرڈ نوبل ، جس کے نام پر نوبل انعام دیئے جاتے ہیں، یا انگمار برگمان جیسے شہرہ آفاق فلمی ہدایتکار کے ملک کے طور پر نہیں جانا جاتا، بلکہ ایک ایسے ملک کی مثال کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں کثیر الثقافتی معاشرہ، مذہبی ہم آہنگی جیسی خوبصورت اصطلاحیں بہت بری طرح پٹی ہیں۔ اور اس کا اظہار بھی اکثر و بیشتر سنائی دیتا رہا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں 2013 میں متشدد ہنگامے ہوئے اور سویڈن کی باشندوں نے پہلی بار سڑکوں پر کاریں جلتی دیکھیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں کئی شہروں کے مخصوص علاقوں میں نو گو ایریاز بن چکے ہیں۔
یہ ملک کبھی جنت نظیر ملک تھا لیکن مسلمان آبادکاروں اور خصوصی طور صومالیہ سے آنے والے آباد کاروں نے اس کی سماجی بُنت کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ مایوسی اور عدم اطمینان کی آوازیں اب سنائی دینا شروع ہو گئی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے سویڈن کے دوسرے بڑے شہر گوتھن برگ کے ضلع بیرگشون کے ایک علاقےمیں رہنے والی ایک خاتون نے لکھا تھا کہ وہ اب اس علاقے میں بالکل اکیلی رہ گئی ہے، بچپن میں جس پارک میں وہ کبھی کھیلا کرتی تھی۔ اب وہاں پر نئے آباد کاروں کے گینگ منشیات اور ہتھیار بیچتے نظر آتے ہیں۔ اُس کے علاقے میں مسلمانوں کی اس قدر بہتات ہے کہ وہاں پولیس افسر بھی مسلمان مقرر کیے گئے ہیں جو مقامی لوگوں کو ایسی ہدایات دینے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ وہ کونسا لباس پہنیں تاکہ اسلامی اقدار مجروح نہ ہوں۔ یہ مسلمان پولیس افسران رمضان کے مہینے میں بہت متحرک ہوتے ہیں۔ انہوں نے کارِن کو بھی روک کر بتایا ہے، کہ وہ اپنا لباس تبدیل کرے کیونکہ اس کا مختصر لباس اسلام اقدار کے منافی ہے کیونکہ اس میں اس کی ٹانگیں نظر آتی ہیں۔کارِن کو پہلے پہل شک ہوا کہ پولیس والا اس سے مذاق کر رہا ہے، لیکن پولیس والے سنجیدگی سے کہا کہ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا، اب نتائج کی ذمہ داری تم پر ہو گی۔
سویڈن سے مقامی باشندے ترک وطن بھی کر رہے ہیں۔ نیچے نارویجن زبان میں ایک کارٹونملاحظہ کیا جا سکتا ہے جو کچھ عرصہ پہلے فیس بک پر نظر آیا تھا ۔ اس میں پناہ گزین سے سوال کیا جا رہا ہے کہ ” تمہیں بھی یہاں پناہ چاہیئے، تم کس ملک سے بھاگے ہو“ مرد جواب دیتا ہے ” مالمو“( مالمو سویڈن کا تیسرا بڑا شہر ہے)۔ یہ ایک مزاحیہ کارٹون سمجھا گیا لیکن چند دن پہلے سویڈش شہری مرسیدیس واہلبی کی پوسٹ فیس بک پر نظر آئی جس پر خاصے تبصرے ہو رہے ہیں۔ یہ پوسٹ نما خط ایک اہم مسئلے کی شدت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
کیامستقبل میں نیوزی لینڈ جیسا واقعہ پیش آ سکتا ہے، کیا سویڈن مستقبل بعید میں کسی خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے، مستقبل کے متعلق یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ بہر حال یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ سویڈن کے حالات خاصے مخدوش ہیں۔ ۔ مرسیدیس واہلبی ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر ہیں ، اُن کی سویڈش زبان میں لکھی تحریر کا نیچے اردو ترجمہ دیا جا رہا ہے۔ ۔
ہم نے بوڈاپسٹ میں فلیٹ خرید لیا ہے ۔
یہ فیصلہ ہم نے ہلکے دل سے نہیں کیا ، اور نہ ہی ذہنی اذیت کے بغیر کیا ہے۔ ہم کم از کم پچھلے پانچ سال سے سویڈن چھوڑنے کے متعلق آپس میں باتیں کیا کرتے تھے۔ میرا شوہر جو نسلی اعتبار سے سویڈش ہے وہ اس کے بہت حق میں تھا۔ لیکن اس فیصلے کو ٹالنے کے لیے برسوں تک میں نے لاکھوں بہانے تراشے۔ میں نے ہمیشہ یہ امید رکھی کہ ایک دن سویڈن میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن ہر گزرتے سال سے یہ نظر آ رہا ہے کہ سب کچھ بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے بہت کم امید نظر آ رہی ہے کہ اس منفی رجحان کو واپس موڑا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اور اگر کچھ بہتری کی صورت پیدا ہوئی تو وہ میری زندگی میں نہیں ہو گی۔
میں یہاں اب مزید نہیں رہنا چاہتی۔ اس درجہ ذہنی تناؤ، عدم تحفظ، قتل، فائرنگ، پھانسیاں، دھماکے، زنا بالجبر، اجتماعی آبرو ریزی، ڈکیتی، گھر کے اندر چوری، مار پیٹ، گاڑیوں کو جلایا جانا، سکولوں کو آگ لگانا، سنگین مجرم جو کچھ عرصہ بعد جیل سے رہا ہو جاتے ہیں، اور پھر ہمارے درمیان آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرتے نظر آتے ہیں، تیزی سے گھٹتی ہوئی فلاح و بہبود، صحت کی دیکھ بھال سے متعلقہ پیشہ ور افراد کی کمی ، اساتذہ اور بوڑھوں کی رہائش گاہ کی کمی، بوڑھوں کی دیکھ بھال کا فقدان، غریب پنشنرز کی بڑھتی ہوئی تعداد، بلدیات جو اصولی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے،
یہ سب ممنوعہ علاقے( نو گو ایریاز) جن کااصل نام کچھ اور ہے، پولیس کے پاس وسائل کی کمی جس کے نتیجے میں یہ اُس جگہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے بعد پہنچتی ہے جہاں جرم ہو رہا ہوتا ہے یا بالکل سرے سے ہی نہیں پہنچتی، یہ ہرسیاسی رنگ کے جھوٹے سیاستدان ، اور یہ شریک مجرم نام نہاد پی کے میڈیا، معمول سے ہٹ کر سوچنے کی کمی، گھٹتی ہوئی آزادی رائے، یہ لگاتار سُکڑتی ہوئی جمہوریت اور پھر ملک کے اندر جاری بڑے پیمانے پر اسلامائزیشن، ۔ اگر ریاست کی مجھے یہ شکل پسند ہوتی تو میرے پاس تو منتخب کرنے کیلئے 53 مختلف ممالک تھے ۔
مجھے سے اب روز یہ نہیں سنا جاتا کہ یہ نیا سویڈن ہے اور یہ ایسا ہی ہے اور اب اسے ایسے ہی قبول کرنا اور نئی صورت حا ل کو پسند کرنا چاہیئے۔مجھ سے پولیس کے نت نئے مشورے نہیں سُنے جاتے جن میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے گاڑی کو چلاتے وقت اندر سے تالہ لگا کر رکھو، شام اور رات کو اکیلے گھر سے باہر نہ نکلو، جاگنگ کے لیے جنگل میں اکیلے مت جاؤ، اندھیری سڑکوں یا گلیوں میں مت جاؤ، مہنگی گھڑیاں یا سونے کے زیورات مت پہنو، مخصوص قسم کے کپڑے مت پہنو، مخصوص قسم کی ٹیکسی یا پبلک ٹرانسپورٹ میں شام یا رات کے وقت اکیلے سفر نہ کرو، مخصوص مردوں کےالزامات یا آوازے کسنے کا جواب نہ دو اور نہ ہی اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ تم انہیں دعوت دے رہی ہو وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں تم اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری کے اندر مقید کر لو۔
مجھے لگتا ہے کہ میں ایک جیل میں رہتی ہوں کہ میں آزادی سے سانس نہیں لے سکتی۔ مجھے ہر وقت چوکنا رہنا پڑتا ہے، اپنے اردگرد دھیان اور پیچھے دیکھنا پڑتا ہے۔میں اصل میں ایک فرانسیسی نژاد ہوں جس نے کئی سالوں سے سویڈش شہریت لے رکھی ہوئی ہے اور میں 1972 سے سویڈن میں مقیم ہوں۔میں سمجھتی ہوں کہ میں مقامی معاشرے کے ساتھ کافی مربوط بلکہ مدغم ہوں۔ جب بھی مائیگریشن کے حوالے سے بات ہوئی تو میرے شوہر نے کئی بار کہا کہ تم مجھ سے بھی زیادہ سویڈش ہو۔
شائد وہ سچ کہتا ہے کیونکہ مجھے پرانے سویڈن سے محبت ہے اور میں نے اسے اپنا وطن گردانا ہے۔ فرانس سےپوری زندگی میں جو مجھے ملاہے،سویڈن نے مجھے اس سےبھی کہیں زیادہ دیا ہے۔ میری اُس وقت کی جوان زندگی میں سویڈن نے مجھے پہلی بارخوشی دی ہے۔ مجھے دو حیرت انگیز پیار ملے۔ مجھے کم عمری میں ہی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ میں نے بہت محنت کی اور کیرئیر بنایا اور ان تمام سالوں میں اپنے فرائض نبھائے۔ مجھے سرسٹھ سال کی عمر میں پنشن ہو گئی لیکن میں انسٹھ سال کی عمر تک کام کرتی رہی۔ میں نے اپنے تمام قرض ادا کر دیئے ہیں جن میں طالبعلمی کا قرضہ بھی شامل ہے ۔ میں نے بھاری ٹیکس ادا کیا ہے اور معاشرتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے معاشرے سے اس قدر لیا نہیں جس قدر دیا ہے۔
سویڈن میرے نزدیک صرف حیرت انگیز اور خوبصورت قدرتی مناظر والا ملک ہی نہیں ہے، جیسے اونچی پہاڑیاں جہاں میں 1992 میں تین ہفتے گھومتی رہی تھی، وہ سفید فریموں والے چھوٹے چھوٹے سرخ کاٹیج ، موسم گرما کی آدھی رات جب آپ مکئی کے کھیتوں کے گرد رقص کرتے ہیں اور ”چھوٹے مینڈک“ والا گانا گاتے ہیں۔ سویڈن میرے نزدیک ایک ثقافت ہے جس کا دوسری چیزوں سمیت ہمارے سیاستدان انکار کرتے ہیں۔
سویڈن وائکنگز ہے ، ان کے عقائد ہیں ، اُن کے وہ نقصانات ہیں جو انہوں نے میرے پرانے وطن فرانس، اور خاص طور پر نارمنڈی کو جہاں میری جڑیں ہیں، کو پہنچائے ۔ سویڈن اس کے عظیم بادشاہ ہیں جیسے واسا، کارل دوازدہم، گوستاو ہفتم آڈولف ۔ سویڈن آ۔ستریندبیرگ، ایس۔ لاگیرلوف، ڈبلیو، موبیرگ، آ۔ لیند گرین جیسے مصنفین اور آ۔زورن اور بی للیےفورس جیسے مصوروں کا نام ہے۔ سویڈن الفریڈ نوبل ہے، سویڈش ایجادات جنہیں گنوا کر فہرست کو طویل بنایا جا سکتا ہے۔سویڈن سکانسن ہے جہاں گزرے وقتوں کے چھوٹے چھوٹے کاٹیج ہیں جہاں آپ تاریخ کے پروں کو محسوس کرتے ہیں، یہاں کی دستکاریاں جیسے شیشے کو پھُلانا ، قدرتی مناظر والی کشیدہ کاری ، اون اور لِینن کی کتائی ، جھالریں لگا نا اور بہت کچھ ۔
میں نے حالیہ برسوں میں ایک نئے ملک میں پناہ لینے کے لیے معلومات اکٹھی کی ہیں۔ کئی سال قبل فرانس کو متبادل کے طور پر منتخب کیا تھا۔ اسپین ، اٹلی ، انگلینڈ ، بیلجیئم اور نیدرلینڈ ز جیسے ممالک میں زبان کے علاوہ کوئی کشش نہیں ہے۔ ڈنمارک ایک اور متبادل تھا لیکن اُس کے اپنے مسائل ہیں، حالانکہ یہ سویڈن جتنے سنگین نہیں ہیں،اور جزوی طور پر دوسری وجوہات بھی ہیں۔ یوروپی یونین سے باہر ، ہمارے لئے بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔
اور وائز گارڈ گروپ (چیک ریپبلک، ہنگری، پولینڈ، سلوواکیا) کے ممالک کہاں ہیں ، میں ان ممالک کے بارے میں جتنا منفی سنتی ہوں اور پڑھتی ہوں ، اتنی ہی مجھے دلچسپی ہوجاتی ہے کہ میں خود الزامات کی تحقیقات کروں۔ ہم نے گذشتہ سال پولینڈ کا دورہ کیا تھا اور اس سال یہ ہنگری تھا۔
میں بوڈاپسٹ میں پینتیس دن رہی اور مجھے اچھا لگا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ میں نے یہاں خود کو محفوظ محسوس کیا۔ میں نے ہر روز بسوں اور سب وے میں سفر کیا ہے، حتیٰ کہ کئی بار بہت رات گئے اس میں سفر میں مجھے کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔ میں سٹاک ہوم میں کبھی ایسی جرأت نہ کرتی۔ میں نے یہاں کے لوگوں کو دیکھا ہے جو دوستانہ رویئے کے مالک اور مددگار ہیں جنہیں اپنے ملک، اپنی اصلیت اور اپنے جھنڈے سے پیار ہے۔ مثلاََ پارلیمنٹ کے سامنے فلیگ پول پر ہنگری کا جھنڈا لگا ہوا ہے اور جب جھنڈے کو بلند کیا جاتا ہے تو دو فوجی اسے سلامی دیتے ہیں۔
میں سادہ لوح نہیں ہوں ، میں ہرگز یہ نہیں سمجھتی کہ ہنگری میں سب کچھ ٹھیک ہے۔مثال کے طور میں دیکھا ہے کہ یہاں غربت ہے، میں نے سڑکوں اور چوراہوں پر لوگوں کو بھیک مانگتے ہے، شائد اس لیے کہ اُن کی پنشن کافی نہیں ہے۔ میں نے یہاں پر نشے کے عادی افراد کو دیکھا ہے۔ اور میں نے سنا ہے کہ یہاں کچھ خاص قسم کے لوگوں کے مسائل ہیں جیسے وہ لوگ جو کھانے پینے کی اشیا کی دوکانوں کے سامنے نظر آتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ اس وقت ہنگری بہت دباؤ کا سامنا کر رہا ہے خصوصی طور پر یورپی یونین کے دباؤ کا۔ اور کسی خوبصورت دن ہنگری یورپی یونین کے دباؤ کی وجہ سے وہی کچھ کرنے پر مجبور ہو جائے جو یورپی یونین چاہتی ہے لیکن میں امید کرتی ہوں کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو گا۔
یہاں زبان ایک مسئلہ ہے لیکن میں اسے سیکھنے کی پوری کوشش کروں گی ، بلکہ میں نے یہ شروع بھی کر دی ہے۔ میں اپنے نئے وطن پر بوجھ نہیں بنوں گی کیونکہ میں معاشی طور پر اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں۔
پرانا سویڈن موجود نہیں ہے اور میں اس نئے سویڈن میں رہ نہیں سکتی۔ میں پرانے سویڈن کو اپنے دل میں اپنے ساتھ لے جاؤں گی اور اسے کبھی بھی فراموش نہیں کروں گی۔ میں اپنی بقایا زندگی اسی دُکھ کے ساتھ گزاروں گی اور اپنے ملک کو یاد کروں گی اور اسی طرح میرے دل میں اپنے سیاستدانوں کے لیے غصہ رہے گا جنہوں نے ایسا ہونے کی اجازت دی اور اس کے یے منصوبہ بندی کی اور اپنے لوگوں کو بدترین دھوکا دیا۔
میں جائیداد کی اپنے نام پر منتقلی کے لیے جلد ہی واپس بوڈاپسٹ جاؤں گی، ایک سال کے بعد سویڈن سے میرا ناطہ مستقل طور پر ختم ہو جائے گا اور مستقل طور پر ہنگری میں رہائش پذیر ہو جاؤں گی۔
♦
One Comment