سید کاشف رضا
دنیا کا کوئی بھی خطہ جب خبروں میں آتا ہے تو جی یہ چاہتا ہے کہ خبروں اور سیاسی تجزیوں سے قطع نظر اس خطے کے ماحول اور اس کے باشندوں کی بود و باش اور ثقافت کے بارے میں بھی کچھ جانا جائے۔ ہماری یہ بھوک فکشن پوری کرتا ہے۔
کشمیر کا خطہ لسانی لحاظ سے متنوّع ہے اور کشمیری زبان کا ادب صدیوں پرانا ہے۔ بات اُردو فِکشن تک محدود کی جائے تب بھی پڑھنے کے لیے خاصا مواد موجود ہے۔ اُردو فکشن میں کشمیر کے حوالے سے آج مجھے دو نام یاد آ رہے ہیں: کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو۔
آج کشمیر کے بنیادی حوالے دو ہیں: ایک اس کا فطری حُسن اور دوسرے اس کی سیاسی صورتِ حال۔ کشمیر کے ان دو عاشقوں میں سے کرشن چندر کشمیر کے فطری حسن کے متوالے ہیں تو سعادت حسن منٹو کے کشمیر کے حوالے سے دو مشہور افسانے اس کے سیاسی پس منظر کے بارے میں ہیں۔
کرشن چندر کا آبائی تعلق موجودہ پاکستان کے ضلع گوجرانوالہ کے شہر وزیرآباد سے تھا مگر ان کا بچپن کشمیر کے علاقے پونچھ میں گزرا تھا۔ پونچھ میں گزرے بچپن کے ان دنوں نے کرشن چندر کی زندگی پر گہرا اثر چھوڑا۔ کشمیر کے فطری مناظر نے ان کے ہاں ایک خاص طرح کی رومان پسندی کو جنم دیا، جس نے ان کی نثر اور ان کی ترقی پسندی کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔
کرشن چندر کا ناول”شکست‘‘ کشمیر اور کشمیر کی تقسیم سے متعلق ہے۔ ناول ”برف کے پھول‘‘ کے آغاز میں انہوں نے پیر پنجال کی پہاڑیوں پر بہار کے پہلے روز کا بہت خوب صورت نقشہ کھینچا ہے۔ انہوں نے ”کشمیر کی کہانیاں‘‘ کے عنوان سے افسانوں کا ایک مجموعہ بھی شائع کیا۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر کے مختلف علاقے ان کے فکشن میں نظر آتے ہیں۔ افسانہ ”بند والی‘‘ میں وہ کشمیر کی جھیل ڈل کے حسن کی تعریف میں ایک شاعر کے روپ میں نظر آتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”ڈل کی نیلی نیلی لہروں پر آفتاب کی آخری کرنیں لرزاں تھیں۔ ہوا میں پھولوں کی بُو بسی ہوئی تھی۔ ہمارے اردگرد کنول کے پھول تیر رہے تھے اور اُن کی نازُک پتیوں پر پانی کے قطرے ٹِکے ہوئے تھے۔
“افسانہ ”پورے چاند کی رات‘‘ میں کرشن چندر نے ایک طلسماتی ماحول میں سمل جھیل اور ولر جھیل کے قرب و جوار میں ایک رومان تخلیق کیا ہے۔ اس میں کرشن چندر لکھتے ہیں، ”اپریل میں زمستاں کی آخری شب میں جب بادام کے پھول جاگتے ہیں اور بہار کے نقیب بن کر جھیل کے پانی میں اپنی کشتیاں تیراتے ہیں، پھولوں کے ننھے ننھے شکارے سطحِ آب پر رقصاں و لرزاں بہار کی آمد کے منتظر ہیں۔ پل کے جنگلے کا سہارا لے کر میں ایک عرصہ سے اُس کا انتظار کر رہا تھا‘‘۔
کشمیر کے حُسن کو ایسی جادُو بیاں نثر میں ڈھالنے والے کرشن چندر کو اُردو فکشن کیسے فراموش کر سکتا ہے؟
سعادت حسن منٹو خود ایک کشمیری تھے، جن کا خاندان امرتسر میں مقیم تھا۔ انہوں نے بھی کشمیر کی تقسیم کو موضوع بنایا۔ منٹو نے ”ٹیٹوال کا کتا‘‘ کے نام سے ایک کہانی لکھی۔ اس وقت کشمیر کا ایک حصہ پاکستان اور دوسرا بھارت کے کنٹرول میں آ چکا تھا۔ منٹو نے ایک کتے کی کہانی لکھی، جو دونوں ملکوں کے درمیان سینڈوچ بن جاتا ہے۔ کبھی پاکستانی مورچوں کی جانب بھاگتا ہے اور کبھی بھارتی مورچوں کی جانب۔ منٹو نے پاک بھارت تقسیم سے متعلق اپنی کہانی ”ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میں جیسے ایک پاگل کو کردار سے بڑھا کر ایک علامت بنا دیا ہے، اسی طرح ٹیٹوال کا یہ کتا بھی ایک علامت بن جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو کی دوسری کہانی کا نام ہے ”آخری سلیوٹ‘‘۔ اس میں کشمیر کے محاذ پر دو ایسے فوجی آمنے سامنے آ جاتے ہیں، جو دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک ہی یونٹ میں تھے۔ رام سنگھ کو رب نواز کی گولی لگتی ہے، رب نواز اپنے دوست رام سنگھ کے آخری لمحات میں اس کے قریب پہنچتا ہے اور دونوں دوست عالمی جنگ، اٹلی میں گزارے دِنوں اور کسی ‘میڈم پیسہ ختم، تماشا ختم‘ کو یاد کرتے ہیں۔ رام سنگھ پوچھتا ہے، “یارا سچ سچ بتاو، کیا واقعی تم لوگوں کو کشمیر چاہیے؟‘‘۔
رب نواز پورے خلوص کے ساتھ کہتا ہے، ”ہاں رام سنگھا‘‘۔ مرنے مارنے والے یہ دو دوست ایک دوسرے کو یہ نہیں بتا سکے کہ کشمیریوں کو کیا چاہیے۔
DW
One Comment