چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آج لاہور کے مقامی ہوٹل میں معروف قانون دان ایس ایم ظفر کی نئی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایس ایم ظفر سب کی آئیڈیل شخصیت ہیں اورنوجوانوں کو ایس ایم ظفرکو آپنا آئیڈیل اورخود کوان جیسا بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔
کوئی کس شخصیت کو اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے اس پرکسی کواعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ کسی فرد کی ذہنی استعداد،معیاراورعلمی قابلیت ہے جس کی بنیاد پروہ کسی شخصیت کو اپنا آئیڈیل قراردیتا ہے۔ کسی شخصیت کو اپنا آئیڈیل قرار دینے والے فرد کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنی آئیڈیل شخصیت کے کردار وعمل کو بہترین خیال کرتے ہوئے اس کے نقش قدم پر چلنے پر یقین رکھتا ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں۔وہ پاکستانی ریاست کے اہم ترین ادارے کے سب سے اعلی ترین عہدے پر فائز ہیں ان کا کسی شخصیت کی تعریف میں اس حد تک جانا کہ اسے نہ صرف اپنا آئیڈیل کہنا بلکہ دوسروں کو بھی ان کے کردار و عمل کی پیروی کرنے کی تقلین کرنا کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جسے سرسری طورنظر انداز کردیا جائے۔ چیف جسٹس کے ادا کیے ہوئے الفاظ کی اپنی اہمیت اور حیثیت ہے۔
ایس ایم ظفرکا شمار پاکستان کی وکلا برادری کی اہم ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔وہ نہ صرف معروف وکیل بلکہ بہت مشہور سیاسی شخصیت بھی ہیں۔ان کےکریڈٹ پراہم ترین مقدمات ہیں۔ ان کے مقدمات پر نظر دوڑائی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے جن اہم مقدمات میں ہاتھ ڈالا ان میں انھیں ریاستی مشینری کی حمایت حاصل رہی ہے۔ انھوں نے کبھی ایسا کوئی مقدمہ نہیں لڑا جسے ہم جمہوری اور انسانی حقوق کا مقدمہ کہہ سکیں۔ وہ کبھی عام پاکستانی کے وکیل نہیں رہے ان کے موکل ہمیشہ ریاستی ادارے اور حکمران اشرافیہ کے افراد رہے ہیں۔ایس ایم ظفر کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ہمیشہ اقتدار کی دائیں طرف موجود رہے ہیں انھوں نے کبھی اپوزیشن کی سیاست نہیں کی اور برسر اقتدار پارٹی کا حصہ بنتے رہے ہیں۔
ایس۔ایم ظفر پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس وقت نمودار ہوئے جب جنرل ایوب خان نے انھیں 25 مارچ 1965 کو اپنی کابینہ میں بطور وزیر قانون شامل کیا تھا۔ ایس۔ایم ظفر جب وزیر قانون بنے اس وقت ان کی عمر محض 35 برس تھی اور وکالت کے میدان میں اس وقت تک وہ کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتے تھے۔ ان کے مخالفین کا کہنا کہ جنرل ایوب خان کی کابینہ میں ان کی شمولیت مبینہ طوران کی قانونی قابلیت کی بجائے ان کی ساس ملکہ پکھراج کی کوششوں کی مرہون منت تھی۔وہ جنرل ایوب خان کی حکومت کے خاتمے۔۔ 21 مارچ 1969۔ تک کابینہ میں شامل رہے۔ وہ قومی اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بھی تھے۔
جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ خان برسر اقتدار آئے تو انھوں نے ان کی طرف دوستی اور حمایت کا ہاتھ بڑھایا لیکن جنرل نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور کارنیلس کو اپنا وزیرقانون بنا لیا تھا۔ بھٹو کے دور حکومت میں وہ پیر پگاڑا کی مسلم لیگ میں شامل رہے اور پھر قومی اتحاد کی قانونی ٹیم کا حصہ بنے تھے۔ جب جنرل ضیا نے مارشل لا لگایا تو انھوں نے مارشل لا سے تعاون جاری رکھا۔ جب جتوئی نے پیپلزپارٹی سے علیحدہ ہوکر نیشنل پیپلزپارٹی قائم کی تو ایس ایم ظفر اس میں شامل ہوگئے تھے۔
وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ مل کر بے نظیر حکومت کے خلاف سرگرم رہے۔ ن لیگ کے خلاف جب آئی ایس آئی نے ق لیگ کا ڈول ڈالا تو ایس ایم ظفر کو انھوں نے اپنے ساتھ پایا تھا ۔ 2006 میں وہ ق لیگ کے ٹکٹ پر سینٹر بن گئے تھے اور پھر 2011 میں ایک دفعہ پھر سینٹر بن گئے تھے۔
ایس ایم ظفر کی سیاست اقتدار پرستی،غیر جمہوری قوتوں کی حمایت اور چاپلوسی اور ان کی قانونی معاونت اور اقتداری سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا کلاسیکی نمونہ ہے۔ایس ایم ظفر کی پیشہ ورانہ اٹھان ہو یا پھر سیاسی ترقی یہ سب اقتدار پرست طاقتوں کی ہمنوائی کی بدولت ہے اورایسی شخصیت جس کی تمام زندگی موقع پرستی اور اقتدار پرستی پر استوار ہو اس کو اپنا آئیڈیل وہی فرد قرار دے سکتا ہے جو موقع پرستی اور اقتدار کے قریب رہنے کو باعث سعادت سمجھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کا آئیڈیل نہیں ہوسکتے جو عوام کی حکمرانی، سماجی انصاف اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہو۔
♦