پاکستانی حکومت کی طرف سے میڈیا ٹریبونلز کے قیام کے فیصلے پر صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت ان ٹریبونلز کے ذریعے ملکی میڈیا پر مزید قدغنیں لگانے جا رہی ہے۔
اسلام آباد میں وفاقی حکومت نے منگل سترہ ستمبر کو ان ٹریبونلز کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اس حکومتی فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے منگل کے روز ذرائع ابلاغ کو اسلام آباد میں بتایا تھا کہ پیمرا میں زیر التوا مقدمات ان ٹریبونلز کو منتقل کر دیے جائیں گے اور ایسے مقدمات میں فیصلے نوے دن میں سنا دیے جائیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ٹریبونلز میڈیا انڈسٹریز اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے حوالے سے معاملات کو نمٹائیں گے جب کہ ان ٹریبونلز کی نگرانی اعلیٰ عدالتیں کریں گی۔
ان ٹریبونلز کے قیام کے لیے مختلف حکومتوں نے ماضی میں بھی کوششیں کی تھیں لیکن صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے انہیں اپنے ارادے ترک کرنا پڑے تھے۔ اب تاہم ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ان کے قیام کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔جبکہ ناقدین کے خیال میں پاکستان میں پہلے ہی میڈیا پر بہت سی غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں اور اب اس فیصلے کے بعد ان پابندیوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ میڈیا کے حوالے سے پالیسی بنانا حکومت کا کام نہیں ہے۔انہوں نے اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میڈیا ہاؤسز کے مالکان، مدیران اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں موجود ہیں اور ان مسائل پر انہوں نے ماضی میں بھی پالیسیاں بنائی ہیں اور اب بھی ایسا کر سکتی ہیں۔ تو حکومت کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی طرح کے میڈیا ٹریبونلز قائم کرے۔ اس کا سیدھا سا مقصد میڈیا پر مزید پابندیاں لگانا اور اظہار رائے کی آزادی کے مواقع کو مزید کم کرنا ہے‘‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کے خیال میں ایک ریگولیٹری باڈی پہلے ہی سے موجود ہے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پھر میڈیا ٹریبونلز کیوں بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پیمرا کی شکل میں پہلے ہی ایک ریگولیڑی اتھارٹی موجود ہے، جو میڈیا کے حوالے سے شکایات اور اعتراضات سنتی ہے، جس کے سامنے کئی بار میں خود بھی پیش ہوا ہوں اور سول سوسائٹی کے افراد بھی اس کی کارروائیوں کا حصہ رہے ہیں۔ اس طرح شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والے بھی پیمرا کی کارروائیوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ تو پیمرا کی موجودگی کے باوجود ایسے ٹریبونل بنانے کا مقصد پھر واضح ہے کہ حکومت میڈیا پر مزید سختیاں کرنا چاہتی ہیں‘‘۔
سینیٹر تاج حیدر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو ایسے ٹریبونلز کے قیام کے لیے قانون سازی کرنا پڑے گی، ”ہم ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس کے خلاف سخت مزاحمت کریں گے اور میڈیا پر پابندیاں کسی بھی صورت قبول نہیں کی جائیں گی۔‘‘
پاکستان میں کچھ حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان ٹریبونلز سے صحافیوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم کراچی یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری ناصر محمود کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت صحافت اور صحافیوں کی بہتری کے لیے یہ ٹریبونل قائم کرنا چاہ رہی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے زیادہ تر چینلز اور میڈیا ہاؤسز کنٹرول کر لیے ہیں۔ لیکن کچھ میڈیا ہاؤسز کنٹرول نہیں ہو پا رہے۔ اسی لیے عمران خان کی حکومت نے بھی پیمرا کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایک بڑا چینل اب بھی نون لیگ کا حامی ہے اور اس پارٹی کا بیانیہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ تو پیمرا کو ختم کر کے ایسے چینلز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی‘‘۔
ناصر محمود کا مزید کہنا تھا کہ صحافت اور صحافیوں کی بہتری کے لیے حکومت کو کسی ٹریبونل کی ضرورت نہیں۔اگر حکومت صحافیوں کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے، تو وہ یہ کام کسی ٹریبونل کے بغیر بھی کر سکتی ہے۔انہوں نے بتایا، ”کچھ میڈیا ہاؤسز میں مہینوں اور کئی اداروں میں سالوں سے میڈیا کارکنان کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ حکومت نے ان کے لیے کیا کیا ہے؟ صرف میڈیا مالکان سے ساز باز کی ہے جب کہ صحافی حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے‘‘۔
پاکستان کی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سابق رکن اور معروف صحافی ناصر ملک ان آئندہ ٹریبونلز کے پیچھے اندرونی اور بیرونی عوامل بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”حکومت میڈیا پر سو فیصد کنٹرول چاہتی ہے۔ مارشل لاء سے بھی بدتر سنسر شپ آنے والی ہے۔ خطے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، جو کسی بھی وقت جنگی صورت حال میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ جنگ کی صورت میں پاکستان میں حکومت خارجہ امور پر یو ٹرن لے گی، جس پر شدید عوامی تنقید بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس طرح کے ٹریبونلز بنا کر صحافیوں کو سزائیں دی جائیں گی اور میڈیا پر بھر پور پابندیاں لگائی جائیں گی‘‘۔
DW