لیاقت علی
شکار پور( سندھ) کا ایک لڑکا پاگل کتے کے کاٹنے کی بدولت کچھ دن قبل مرا تو مین سٹریم اورسوشل میڈیا پربہت زیادہ شوراورواویلا ہوا اورہسپتالوں میں پاگل کتے کے کاٹے کی ویکسیئن کی عدم موجودگی کولے کرسندھ حکومت کو خوب لتاڑا گیا حالانکہ یہ مسئلہ صرف سندھ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔
کشمیر مسئلے پر پیدا ہونے والے حالیہ تناو سے قبل پاگل کتے کے کاٹے کی ویکسین بھارت سے درآمد کی جاتی تھی لیکن بھارت سےہر قسم کی تجارت بند ہونے کی بدولت یہ ویکسئین آنا بند ہوگئی ہے۔بھارت سے قبل یہ ویکسئین چین سے درآمد کی جاتی تھی لیکن چین نے یہ ویکسئین بنانا بند کردی ہے کیونکہ انھوں نے اس مرض کا مکمل خاتمہ کردیا ہے۔
جہاں تک پرائیویٹ میڈیکل سٹورزکا تعلق ہے تووہاں یہ ویکسین اب بھی موجود ہے۔اصل مسئلہ تویہ ہےکہ غریب پاکستانی جو سرکاری ہسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں کو یہ ویکسین میسر نہیں ہے۔
ہمارے دیہاتوں میں آوارہ کتوں،بلیوں،چوہوں اوردیگرجنگلی جانوروں کے کاٹنے کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں اوردیہاتی اس کے علاج کے لئے ہسپتال کا رخ کرنے کی بجائے مقامی پیر،مولوی اوردرگاہ کا رخ کرتے اورصدیوں سے نسل در نسل چلے آنے والے ٹونے ٹوٹکوں کا سہارا لیتے ہیں۔کیونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کاٹنے والےہرکتا اورآوارہ جانور پاگل ہی ہواس لئے بہت سے افراد دم درود اورٹونے ٹوٹکوں سے ٹھیک ہوجاتے ہیں جس سے پیر،مولوی اوردرگاہ کی دھاک بیٹھ جاتی ہے لیکن جس شخص کو واقعی پاگل کتے وغیرہ نے کاٹا ہوتا ہے وہ چند ہفتوں بعد سسک سسک کر جان دے دیتا ہے اور اس کے لواحقین اسے قسمت کا لکھا سمجھ کرصبرشکر کر لیتے ہیں۔
آج سے 134 سال قبل یورپ میں بھی پاگل کتوں اورآوارہ جانوروں کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں تھا وہاں بھی لوگ مریض کی صحت یابی کے لئے پادری سے دعا کرواتے اورروایتی ٹونے ٹوٹکوں پرانحصار کیا کرتے تھے۔ یہ فرانسیسی سائنس دان لوئی پاسچر تھا جس نے سب سے پہلے یہ ویکسین ایجاد کی اور خود ہی ایک بچے کو لگائی تھی۔
لوئی پاسچر دسمبر 1822 میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ نپولین کی فوج میں نان کمیشنڈ آفیسر تھا۔ پاسچرسکول کے زمانے میں ڈرائنگ اور پینٹگ میں دل چسپی رکھتا تھا۔ اس نے اپنے والدین اور دوستوں کی اس دور میں جو پینٹگز بنائیں وہ بہت اعلی معیار کی تھیں۔ بعدازاں اس نے سائنس کو اپنا دلچسپی کا مرکز بنالیا۔ اس کو زیادہ دلچسپی کیمسٹری میں تھی۔
پاسچر نے کئی سالوں پر محیط تجربوں کے نتیجے میں یہ ویکسین بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے جولائی 1885 میں ایک نوسالہ بچے جارج ،جسے ایک پاگل کتے نے کاٹا تھا اور اس کے جسم پر 14 زخم تھے کو پہلی دفعہ یہ ویکسین بذریعہ انجیکشن لگائی تھی۔ جارج لوئی پاسچر کی تیار کردہ ویکسین کی بدولت صحت یاب ہوگیا اور اس نے پاسچر کے انسٹی ٹیوٹ میں ملازمت اخیتار کرلی جہاں وہ 1940 تک کام کرتا رہا۔
لوئی پاسچر ستمبر 1895 میں اس جہاں سے رخصت ہوگیا لیکن اس کی ایجاد کردہ ویکسین ہرسال 250000 ایسے افراد کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیتی ہے جنھیں پاگل کتوں، بلیوں اور دوسرے آوارہ جانوروں نے کاٹا ہوتا ہے۔
لوئی پاسچر بلا شبہ انسانیت کا محسن ہے۔ لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم تو ہیں لیکن کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں ۔
♦