ظفر آغا
کیا بھونڈا مذاق کرتے ہیں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان! ذرا خود ملاحظہ فرمائیے، ابھی دو روز قبل مقبوضہ کشمیر میں ایک تقریر کے دوران کشمیر کے تازہ حالات کے تعلق سے انھوں نے کیا فرمایا۔ وہ فرماتے ہیں کہ کشمیر میں جیسے ہی کرفیو اٹھے گا اور کشمیری سڑکوں پر نکلے گا تو ساری دنیا کے مسلمانوں میں اس کا ’رد عمل‘ ہوگا۔ انھوں نے ہندوستان کو آگاہ کیا کہ ’’دنیا کے 1.25 بلین مسلمانوں کی نگاہیں کشمیر پر لگی ہیں۔‘‘ عمران خان کا یہ بھی خیال ہے کہ کشمیر کے حالات دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں میں انتہاپسندی کا رجحان بڑھ جائے گا اور لوگ سڑکوں پر نکل پڑیں گے‘‘۔
پتہ نہیں عمران خان کس ہوا میں ہیں۔ کم از کم ان کو کشمیری واقعات و حالات کے تعلق سے دنیا بھر اور بالخصوص عالم اسلام کی حکومتوں اور عوام کا تاثر تو معلوم ہی ہوگا۔ سعودی عرب سے لے کر دوبئی تک کم و بیش دنیا کے تمام مسلم ممالک ماسوائے ترکی سب نے کشمیر میں حکومت ہند کے تازہ ترین اقدامات کو ہند و پاک کا اندرونی معاملہ کہا اور دونوں ملکوں سے آپس میں مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کرنے کی سفارش کی۔
صرف اتنا ہی نہیں، کشمیر میں آئین کی دفعہ 370 ختم کرنے کے بعد جب وزیر اعظم نریندر مودی دوبئی اور عمان جیسے مسلم ممالک کے دورے پر گئے تو نہ صرف ان کا وہاں شاندار خیر مقدم ہوا بلکہ وہاں کی حکومتوں نے مودی کو اپنے ملک کے اعلیٰ ترین انعام و اکرام سے نوازا۔ یہ بھی یہاں عرض کرنا لازمی ہے کہ 1.25 بلین مسلمانوں کو تو جانے دیجیے، کشمیر کے باہر کہیں بھی ایک غیر کشمیری مسلمان نے کشمیریوں کے لیے احتجاج نہیں کیا۔
ارے وہ قوم جس کو فلسطین اور قبلہ اول کی فکر نہ بچی ہو بھلا اس قوم کو کشمیریوں کی کیا فکر ہوگی۔ کسی بھی مسلم ملک (ماسوا ترکی) نے ابھی تک کوئی ایسا بیان نہیں دیا ہے جس کو ہندوستان مخالف کہا جائے۔ عمران خان کا عالمی مسلم اتحاد کا خواب محض ایک خواب ہے جو نہ پہلے کبھی شرمندہ تعبیر ہوا اور نہ اب ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ عمران خان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کوئی بچہ نہیں بلکہ ’مملکت خداداد پاکستان‘ کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ نہ تو کسی بھی مسلم ملک کے کان پر کشمیر کے تعلق سے جوں رینگی ہے اور نہ ہی آئندہ رینگنے والی ہے۔ دراصل عمران خان خود پاکستانی عوام کی آنکھوں میں خاک جھونک رہے ہیں۔ پچھلے 70 برسوں سے وہ پاکستانی نظام جو کشمیر کے نام پر اپنے ملک میں ہندوستانی منافرت کے نام پر حکومت کر رہا تھا، نریندر مودی نے منٹوں میں وہ مسئلہ کشمیر ہی ختم کر دیا۔
اب کشمیر پوری طرح ہندوستان کے قبضے میں ہے۔ آہستہ آہستہ سنگھ کے منصوبہ کے مطابق وادیٔ کشمیر میں باہر سے غیر مسلم آباد ہوتے رہیں گے اور کشمیری مسلمان وہاں اقلیت میں ہو جائے گا۔ بے چارہ کشمیری پتھروں سے لڑے گا اور فلسطینیوں کی طرح مارا جائے گا۔ پاکستان کی مجال نہیں کہ وہ ہندوستان کے خلاف جنگ کر سکے۔ سنہ 1971 میں ہندوستانی فوج کے ہاتھوں دو ٹکڑے میں بنٹنے والا پاکستان بخوبی اس بات سے واقف ہے کہ وہ ہندوستان سے جنگ نہیں جیت سکتا ہے۔ تب ہی تو عمران خان ایٹمی جنگ کی گیدڑ بھبکی تو دے رہے ہیں لیکن جنگ کرنے کی ہمت نہیں کر رہے ہیں۔
راقم الحروف پہلے بھی لکھ چکا ہے کہ پاکستان پچھلے تیس برسوں سے کشمیریوں کو آزادی کا خواب دِکھا کر اور ان کو ہتھیار دے کر دہشت گردی کے زور پر ہندوستانی فوج کو کشمیر میں الجھائے ہوئے ہے۔ پاکستانی فوج کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی فوج کشمیر میں ایک ’پراکسی جنگ‘ میں الجھی رہے تاکہ اس کو پاکستان پر حملہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ کیونکہ سنہ 1980 کی دہائی میں جب جنرل ضیاء الحق نے کشمیر میں دہشت گردی کی شروعات کی تھی تو اس وقت افغانستان میں سوویت یونین کی فوج موجود تھی۔
امریکہ کو اس وقت افغانستان میں سوویت یونین کو دہشت گردی (جس کو انھوں نے جہاد کا لیبل دیا تھا) کے ذریعہ سبق سکھانا تھا اور یہ ٹھیکا اس وقت پاکستان کو دیا گیا تھا۔ پاکستان میں افغانی مجاہد اور اسامہ بن لادن سمیت دنیا بھر کے ’جہادی‘ ٹریننگ لے کر افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس وقت ہندوستان سوویت یونین کے ساتھ تھا۔ اس لیے جب پاکستان نے کشمیر میں دہشت گردی کی شروعات کی تو امریکہ سمیت تمام دنیا نے پاکستانی خدمت کے عوض میں اس وقت پاکستان کا ساتھ دیا۔
لیکن اب مودی امریکہ کے ساتھ ہیں اور دنیا کشمیر کے معاملے پر ہندوستان کے ساتھ ہے۔ اور کم و بیش تمام مسلم ممالک بھی امریکہ کے ساتھ ہیں اس لیے کشمیر کے معاملے پر کوئی بھی مسلم ملک چوں نہیں کرنے والا ہے۔ عمران خان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔ لیکن اس ماہ امریکہ میں یو این او کا سیشن ہے جہاں پاکستان کو اس معاملے پر شور مچانا ہے، اس لیے عمران ابھی سے فضا بنا رہے ہیں۔ عمران کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں غیر مقبول ہو چکے ہیں۔ ہندوستان کی طرح پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ اپنے ملک کے عوام کو بھڑکانے کے لیے ان کو مسئلہ کشمیر پر شور مچانا ہی ہوگا۔
کشمیر میں مودی حکومت نے جس طرح آئین کی دفعہ 370 کو ختم کر ریاست کو دو حصوں میں بانٹا اور وادی میں جس طرح کرفیو نافذ کیا وہ یقیناً ایک غیر انسانی عمل ہے اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم ختم ہونے چاہئیں۔ پاکستان کو کشمیر میں کبھی دلچسپی نہیں تھی، وہ تو کشمیر کارڈ کا استعمال کر اپنی عوام کے درمیان ہندوستان کا ویسے ہی حوا کھڑا کرتا ہے جیسے مودی یا بی جے پی یہاں پاکستان اور مسلم کارڈ کا استعمال الیکشن جیتنے کے لیے کرتے ہیں۔ ہند و پاک دونوں ممالک میں اس وقت کشمیر کارڈ کا استعمال محض اسی لیے ہو رہا ہے کہ عوام کو کشمیر میں الجھا کر ان کو اصل مسائل کے بارے میں سوچنے کا موقع نہ دیا جائے۔
ہند و پاک دونوں ممالک ان دنوں سخت معاشی بحران کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں میں بے روزگاری کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ نوجوان پریشان ہے۔ دونوں ممالک میں تجارت خستہ حال ہے۔ اس پس منظر میں نریندر مودی اور عمران خان دونوں کے حق میں یہی ہے کہ وہ کشمیر کے نام پر ایک ’فرضی دشمن‘ (جو پاکستان میں ہندو اور ہندوستان میں مسلمان ہے) کا حوا کھڑا کریں اور اقتدار پر قابض رہیں۔
تب ہی تو ادھر عمران خان کشمیر کے نام پر عالم اسلام کی دُہائی دے رہے ہیں اور اِدھر امت شاہ یہ کہہ رہے ہیں کہ نومبر میں ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کشمیر کے ایشو پر چناؤ لڑے گی۔ اور دونوں ممالک کی اندھی عوام دھرم کے نشے میں اپنے مسائل کو بھول کر کشمیری افیون کی گولی کھا کر اپنی اپنی صاحب اقتدار حکومتوں کی ہاں میں ہاں ملاتی رہے گی۔ آخر کب تک عمران و مودی اپنی اپنی عوام کو کشمیر کا چورن فروخت کریں گے!۔
روزنامہ قومی آواز،دہلی