صداراتی انتخابات سے تین روز قبل شدت پسند تحریک طالبان نے افغانستان میں پولنگ کے دن حملے کرنے کی دھمکی دی ہے۔ طالبان نے عوام سے انتخابات کے دن باہر نہ نکلنے کا کہا ہے۔
طالبان نے پولنگ اسٹیشنز پر تعینات پولیس اہلکاروں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ طالبان کے پیغام میں شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان سے دو ماہ سے جاری مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جب یہ مذاکرات شروع ہوئے تھے تو اسی وقت تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ طالبان افغانستان میں جاری جمہوری عمل کا حصہ بننے کی بجائے افغانستان میں شریعت پر مبنی حکومت بنانا چاہتے ہیں جسے وہ امارات اسلامی کے نام سے پکارتے ہیں ۔
طالبان کو جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں وہ شریعت کی آڑ میں اپنی ڈکٹیٹر شپ چاہتے ہیں اور قرون وسطیٰ کے قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کی حکومت کا فائدہ پاکستان کی فوجی ایسٹیبشلمنٹ کے جنگجو مہم جوئیوں کو تقویت دیتا ہے اور اس کی تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو بھی تقویت بخشتا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے اور سرحد کے دونوں اطراف اس پالیسی کی بھینٹ لاکھوں افراد چڑھ چکے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی دھمکی کے بعد انتخابات ملتوی کرنے کے حوالے سے مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ کئی سیاستدانوں کا موقف ہے کہ صورتحال اس قدر سنجیدہ اور نازک ہو چکی ہے کہ ان حالات میں رائے شماری کا منسوخ کیا جانا ہی بہتر ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق ہفتہ اٹھائیس ستمبر کو انتخابات کے موقع پر سلامتی کے 72 ہزار سے زائد اہلکار حفاظت پر مامور ہوں گے۔ اس موقع پر نوے لاکھ اہل افغان ووٹرز سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک کے نئے سربراہ مملکت کو منتخب کرنے کے لیے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔
پولیس کے کچھ دستوں کو تو منگل 24 ستمبر کو ہی چند مخصوص پولنگ اسٹیشنز پر تعینات کر دیا گیا۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران طالبان کی شدت پسندانہ کارروائیوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر دارالحکومت کابل میں کئی حملے کیے گئے۔
افغانستان کے غیر جانبدار اور آزاد انتخابی کمیشن نے اس صورتحال میں ملک بھر کے پانچ ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز کی حفاظت کے لیے انتہائی سخت انتظامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملکی دستوں نے کہا ہے کہ تقریباً چار سو پولنگ اسٹیشنز کو مناسب تحفظ فراہم کرنا ان کے بس میں نہیں۔
طالبان انتخابات کے مخالف ہیں اور ماضی میں بھی وہ پولنگ اسٹیشنز، انتخابی جلسوں اور امیدواروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ تقریباً نصف افغانستان کا انتظام طالبان کے ہاتھوں میں ہے۔ ہفتے کو ہونے والے انتخابات میں 70 سالہ موجودہ صدر اشرف غنی کے جیتنے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔
DW/Web Desk