خالد تھتھال
خان صاحب نےکل بہت اچھی اور متاثر کُن تقریر کی، درحقیقت یہ سب وہی باتیں ہیں جو وہ اردو میں کہتے رہتے ہیں۔ لیکن انگریزی زبان میں ، اور پرچیوں کے بنڈل کے بغیر ایسی تقریر کرنا واقعی قابل فخر کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس تقریر سے وہ مسائل حل ہو جائیں گے جن کے حل کے لیے لوگوں نے آپ کو چنا گیا تھا؟۔ کیا اس تقریر کے نتیجے میں اقوام متحدہ ایسے اقدامات اٹھائے گی جس سے کشمیر ہمیں مل جائے؟۔
ریاست مدینہ کی شان میں خان صاحب نے بہت جھوٹ بولے، وہ عقیدت کا بہترین نمونہ ہیں لیکن حقائق سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔ ہر کسی کو برابری کے حق، رفاہی ریاست وغیرہ۔ کاش خان صاحب تاریخ اسلام کو مولوی طارق جمیل یا عامر لیاقت سے سیکھنے کی بجائے تاریخ طبری وغیرہ پڑھ لیتے، مسلمان ممالک میں غلامی کب اور کیسے ختم ہوئی۔ اور اب بھی عرب ممالک میں ہمارے مسکینوں سے اسی سنت کے مطابق جو عمل ہو رہا ہے، اسے نظر انداز نہ کرتے۔ کنیزیں مفتوح لوگوں کی بہو بیٹیوں کے علاوہ کیا تھیں ۔ یہ مال غنیمت کیا تھاجس پر اس مدینہ کی ریاست کی فلاح کا دارو مدار تھا۔ کیا یہ فلاح مدینہ شہر تک محدود تھی یا تمام خلافت میں ایک جیسی تھی؟۔
خان صاحب مغربی ممالک سے اسلامو فوبیا کا خاتمہ چاہ رہے ہیں۔ جو بہر حال ایک اچھی خواہش ہے۔ کہ مجھ جیسے لوگوں کی اگلی نسلوں کی زندگی کچھ بہتر ہو پائے گی۔ لیکن خان صاحب جو ہر وقت یہ بات دوہراتے ہیں کہ وہ کرکٹ کی وجہ سے مغرب میں بہت زیادہ عرصہ رہے ہیں لہذا وہ مغرب کو بہت بہتر انداز میں جانتے ہیں۔ شائد انہوں نے کاؤنٹی کے پلیئرز اور گرل فرینڈز سے مغربی معاشرے کی ساخت اور انداز فکر و کار کے متعلق تمام علم اور راز حاصل کر لیے ہوں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغرب میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ لیکن نفرت مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہندو فوبیا، سکھ فوبیا، بدھ فوبیا جیسی اصطلاحات وجود میں نہیں آ سکیں۔اس بات میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے شدت پسندانہ رویئے سلمان رشدی کی کتاب کے وقت پہلی بار سامنے آئے۔ پھر انوسینس آف مسلمز اور کارٹونوں پر بھی ایسا کچھ ہی ہوا۔ لیکن ایسا کچھ ہونا تو کب کا بند ہو چکا ہے۔ مسلمان اپنا بلاسفیمی لا کافی حد تک مغرب پر لاگو کروا چکے ہیں۔
لیکن یہ جو برطانیہ، بلجیئم، نیدرلینڈز، فرانس ، سپین جیسے ممالک میں دہشت گردی کے واقعات جو ہوئے ہیں، ان کی وجہ کیا ہے۔ اور لوگ ہشتگردانہ کاروائیوں کے وقت اللہ اکبر کیوں کہتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ مغرب میں شریعت کے نفاذ کے لیے جو تحریکیں سرگرم ہیں، کسی مولوی نے کبھی اُس کی مذمت نہیں کی۔ برطانیہ جیسے ممالک میں شرعی عدالتیں ہونے کے خلاف کبھی کسی مولوی نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں اپنے دو اینٹ کی مسجد بنانے کی بجائے مقامی قوانین، اقدار،اداروں کو عزت دینی چاہیئے۔
یہ کیا اتفاق ہے کہ داعش کی ریاست کی بنیاد بھی ہمارا عقیدہ تھا۔ جس کی مدد کو مقامی کے علاوہ، دوسرے اسلامی ممالک سے مسلمان جوق در جوق آئے۔ جن میں وہ بھی شامل تھے جو مغرب میں پیدا ہوئے۔ اور آج بھی شام کے کیمپوں میں موجود مسلمان عورتیں واپس مغربی ممالک میں آنے کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے۔
آپ یورپی معاشرے کو بہت اچھی طرح جاننے کے دعوے دار ہیں، اور اس معاشرے سے مراد برطانیہ ہے۔ برطانیہ سے باہر نہ کوئی کرکٹ کھیلتا ہے اور نہ کوئی آپ کو جانتا ہے۔ لہذا جس معاشرے کو آپ جانتے ہیں یا وہ معاشرہ آپ کو جانتا ہےانہی کی زبان کا ایک بہت مشہور مقولہ ہے۔
actions speak louder than words.
لوگ تقریروں یا باتوں کی بجائے آپ کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔ اور یورپ میں مسلمانوں نے جس طرح اودھم مچایا ہے، ان سے یا تو آپ بے خبر ہے یا جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ جن ممالک میں مسلمان دھماکے کرتے ہیں۔ اُس ملک کا حکمران طبقہ اقوام متحدہ کے زور دینے پر کچھ کرے بھی تو وہاں کی عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔
مسلمانوں کے خلاف مغرب میں آہستہ آہستہ جو نفرت بڑھ رہی ہے، اس میں اقوام متحدہ کچھ مدد کر سکتی ہےاور نہ مغربی حکومتیں، بلکہ اب مسلمانوں کو “بندے دا پُتر” بننا ہو گا، وگرنہ مستقبل کچھ اچھی خبر لانے والا نہیں ہے
♦
One Comment