وزیراعظم کی تقریرکےبعد کیا ہوگا ؟

      بیرسٹرحمید باشانی

اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریرایک بڑاموضوع گفتگو ہے۔ کشمیری حلقوں میں کچھ لوگ سانس روکے بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے لوگوں کی آخری امید اب اس تقریرسے بندھ چکی ہے۔  تقریر کے متن کے بارے میں کوئی اسرار نہیں ہے۔  سب جانتے ہیں کہ یہ ایک طاقت ور اور دلگداز خطاب ہوگا۔

  اسرار البتہ اس خطاب کے اثرات و نتائج کے بارے میں ضرور ہے۔ اس باب میں کچھ لوگ بہت پر امید ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ  اس خطاب سے عالمی ضمیر جاگ اٹھے گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ تقریر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی نہ کسیبریک تھروکا پیش خیمہ ثابت ہو۔  کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بہت زیادہ پر امید نہیں، وہ اس تقریر کو ماضی میں اس فورم پر کی جانے والی تقریروں کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔

 مگر جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو جو لوگ  اقوام متحدہ کے  اندر اس مسئلے کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جن مسائل پر طویل ترین مباحثے ہوئے ان میں ایک مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ میں طویل ترین تقریر بھی مسئلہ کشمیر پر ہی ہوئی۔ یہ تقریر بھارتی نمائندے کرشنا مینن  نے کی تھی۔ یہ تقریر گینزبک آف ریکارڈ میں اقوام متحدہ میں ہونے والی طویل ترین تقریر ہے، جس کا ریکارڈ  آج  تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ یہ تقریر آٹھ گھنٹوں پر مشتمل تھی۔ اس تقریر کے دوران کرشنا مینن بے ہوش ہو کر گرپڑے تھے۔ ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔ وہ کچھ  دیرعلاج معالجے کے بعد واپس لوٹے اور ایک گھنٹہ مزید تقریر کی۔

اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں طویل ترین تقریر کا اعزاز سربراہ مملکت کی حیثیت میں فیڈل کاسترو کو حاصل ہے۔ یہ تقریر کاسترو نے 1960میں کی۔ یہ تقریر ساڑھے چار گھنٹے جاری رہی۔ تقریر کا بیشتر حصہ امریکہ کے خلاف تھا۔ اگر تقریر کا کوئی اثر ہوتا تو کاسترو نے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، کہ دنیا کی ہر برائی، ہر مصیبت اور ہر دکھ درد کی جڑ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔ اس تقریر کا نہ تو مندوبین نے کوئی اثر لیا اور نہ ہی امریکی میڈیا اور رائے عامہ نے۔ اس کے برعکس امریکی میڈیا نے ان زندہ مرغیوں میں زیادہ دلچسبی لی، جو کاسترو اپنے ساتھ کیوبا سے لائے تھے، اور ان مرغیوں کو اپنے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں ٹھہرایا ہو اتھا۔

کہا جاتا ہے کہ ان مرغیوں کی وجہ سے کاسترو کو ہوٹل سے نکال دیا گیا تھا۔  لیکن کاسترو کا کہنا تھا کہ ان کو مرغیوں کی وجہ سے نہیں نکالا گیا بلکہ ہوٹل کے مالکان نے ان سے تیرہ ہزار ڈالر کی خطیر رقم بطور ایڈوانس جمع کرانے کا مطالبہ کیا تھا، جس وجہ سے انہوں نے ہوٹل چھوڑ دیا۔ ان کے خیال میں یہ سامراج کی چال اور سازش تھی۔ یہ ہوٹل چھوڑ کر کاسترو سیاہ فاموں کے علاقے میں واقع ایک خستہ حال ہوٹل میں ٹھہرے، جہاں انہوں نے مالکم ایکس سمیت کئی امریکی، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں  اور فن کاروں سے ملاقتیں کیں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز اور عالمی اخبارات کی ہیڈلائنز میں رہے۔

اقوام متحدہ کی ایسی ہی غیر معمولی تقاریر میں ایک مشہور تقریر یاسر عرفات کی بھی تھی۔  یاسرعرفات کو سن1976میں غیر جانب دار تحریک کے ممبر ممالک کی مشترکہ تحریک پر اقوام متحدہ میں آ کر خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔  یاسرعرفات اپنے فوجی یونیفارم میں سٹیج پر تشریف لائے ، انہوں نے اسرائیل اور صہیونت کے خلاف ایک تفصیلی اور پر جوش خطاب کیا۔  انہوں نے کہا کہ  سامراج، نوآبادیاتی نظام، نیو نو آبادیاتی نظام اور نسل پرستی کی  سب سے بڑی شکل صہونیت ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم، تشدد کا دلگداز انداز میں ذکر کیا۔ اس تقریر سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو ضرور پیدا ہوا، مگر فلسطین کے حوالے سے  مختلف ممالک نے پہلے سے جو پالیسی اپنا رکھی تھی اس میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہ آئی اور نہ ہی کسی نئے ملک کی حمایت حاصل ہوئی۔

ایک مشہور تقریر وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز کی بھی تھی۔ اس تقریر میں اس نے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کو شیطان کہا تھا۔ ہوگو شاویزنے نوم چومسکی کی کتاب مندوبین کودکھائی تھی کہ اس میں امریکہ کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ مندوبین نے اس تقریر سے خوب لطف اٹھایا۔ مگر کسی ملک نے وینزویلا کو اس تنہائی سے نکلنے میں مدد نہ کی، جس میں امریکہ نے اسے دھکیل رکھا تھا۔

اقوام متحدہ میں اس طرح کی تقاریر میں ایک تقریر لیبیا کے معمر قذافی کی بھی ہے۔  قذافی کی یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی تقریر تھی، مگر اس نے اگلی پچھلی ساری کسر اس ایک تقریر میں  ہی پوری کر دی۔  قذافی نے مسلسل ایک سو منٹ خطاب کیا۔ اس تقریر میں قذافی نے نصف صدی کے شکوے اورامریکہ کی طرف سے  ہونے والی عالمی سازشوں پر گفتگو کی۔ سازشی نظریے بیان کیے۔ اس نے الزام لگایا کہ امریکہ نے  دنیا میں سوائن فلو پھیلایا  ہے۔

قذافی نے جان ایف کنیڈی کے قتل کے حوالے سے سرکاری ریکارڈ پر سولات اٹھائے  اور حکومتی موقف کو چیلنج کیا۔ مگر اس بار بھی میڈیا اور رائے عامہ نے قذافی کی اقوام متحدہ کی سنسی خیز تقریر سے زیادہ اس کی اقوام متحدہ سے باہر کی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسبی لی۔ انہوں نے نیویارک شہرمیں کسی ہوٹل میں رہنے کے بجائے  مختلف جگہوں پر اپنا خیمہ لگانے کی کوشش کی، جس کی ان کو اجازت نہ مل سکی۔ بالاخر ان کو موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیک یارڈ میں خیمہ لگا کر رہنے کی اجازت دی تھی۔

اقوام متحدہ میں خروشیف کی تقاریر بھی بہت مشہور ہوئیں، جس میں اس نے مخالفین کو زندہ دفن کر دینے کی دھمکی دی تھی۔ مگر میڈیا اور مندوبین نے ان کی تقریر کے بجائے اس جوتے میں زیادہ دلچسبی لی ، جو انہوں نے فلپائن کے نمائندے کو چپ کرانے کے لیے ڈیسک پر مارا تھا۔

کشمیر کے حوالے سے ذولفقار علی بھٹو کی تقریر بھی ایک شہکار تقریر تھی۔ زبان و بیان، دلیل اور جوش و خروش کے حوالے سے شائد ہی کسی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے فلور پر اس سے بہتر تقریر کی ہو۔ اس تقریر میں مضبوط دلائل بھی تھے، اور ایک جذباتی اپیل بھی،  جو انسان کے دل کو چھوتی ہے۔  ذولفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہمیں پہلے سے کئی زیادہ یقین ہے کی جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ انصاف ہو گا۔  ان پانچ ملین لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملنا چاہیے۔

بھٹو نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا حق خود ارادیت کا اصول ایشیا اور افریقا سے لیکر پوری دنیا کے لیے ہے، سوائے جموں کشمیر کے عوام کے ؟ کیا وہ کوئی اچھوت ہیں کہ ان کو حق خودا رادیت نہیں دیا جا سکتا ؟ ان کو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا ؟ جموں کشمیر کے عوام کے اس حق سے انکار کا مطلب ہے کہ اصولوں پر طاقت کا تسلط ہے۔ طاقت کو اصولوں پر برتری نہیں ہونی چاہیے۔ اصول طاقت سے برترہیں ۔ یہ ایک پر مغزاور جذبات کو جھنجوڑ دینے والا خطاب تھا، مگر اس کا نتیجہ کچھ نہ نکل سکا۔

کشمیر پر جن ممالک کی خاموش رہنے کی پالیسی تھی، ان کی خاموشی نہ ٹوٹ سکی۔ اور جن ممالک کا یہ موقف تھا کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کرنا چاہیے، وہ بدستور اپنے موقف پر قائم رہے۔ اقوام متحدہ جیسے  ٹھنڈے ٹھارفورم پر کبھی کبھار ایک موثر اور دل کو چھونے والی تقریرکچھ مندوبین کے ضمیرضرورجھنجوڑ سکتی ہے ، مگرجب کوئی قدم اٹھانے یا فیصلہ کرنے کا لمحہ آتا ہے، تو یہ لوگ اپنے ضمیر کی آواز کے بجائے اپنے اپنے ملک کے سیاسی اور معاشی مفادات کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر جیسے الجھے ہوئے اورجذباتی مسئلے کے کسی باعزت حل کے لیے تقریر کے ساتھ ساتھ ایک پس پردہ خاموش اور سنجیدہ سفارت کاری کی ضرورت ہے۔  

6 Comments