حسن اختر۔ نیویارک
تبدیلی کی دعوے دار عمران حکومت نے بالآخر اقوام متحدہ کے پاکستان مشن میں تبدیلی کر ہی دی ۔گو کہ یہ فیصلہ ہفتوں بلکہ مہینوں پہلے کر لیا جانا چاہئے تھا۔ خیر اب اسے دیر آید درست آید کہہ سکتے ہیں ۔
نیویارک میں بزرگ پاکستانی صحافیوں کا ایک مدت سے خیال تھا کہ ملیحہ لودھی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جانا چاہئے لیکن کشمکش یہ تھی کہ وزیراعظم کے بجائے ایسے احکامات فوجی بھا ئیوں کی طرف سے آتے ہیں سو عمران خان اگر ملیحہ لودھی کو ہٹانا بھی چاہئیں تو شاید نہ ہٹا سکیں جب تک راولپنڈی کی منظوری نہ ملے۔
عمران خان نے بہرحال یہ فیصلہ کر کے ثابت کر دیا کہ عمران حکومت اور پاکستان آرمی ایک ہی صفحے پر ہیں ۔ سابقہ سفیر لودھی کا یہ بیان کہ وہ خود عہدہ چھوڑنے کے لئے پر تول رہی تھیں لغو ہے کیونکہ پی ٹی آ ئی حکومت کے آتے ہی انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی اور اپنی مدت ملازمت میں توسیع کا اصرار کیا۔
یہ ان کے لیے معمول کی بات تھی کیونکہ 2013 میں انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے ہی وہ ٹی وی چینلز کو خود فون کرکے مختلف ٹاک شوز میں خود کو مدعو کرتی رہیں اور حیلے بہانوں سے اشارہ دیتی رہیں کہ جو پارٹی بھی جیتے اسے امریکہ میں سفارت کاری پر کام کرنا چاہیے ۔۔ مشورہ ٹھیک تھا لیکن اشارہ یہ تھا کہ وہ خود ایسے عہدوں پر رہ چکی ہیں تو کیوں نہ انہیں ہی اس کے لیے منتخب کیا جائے۔
جیسے جیسے نتائج سے یہ منظر واضح ہوا کہ نواز شریف حکومت سنبھالیں گے تو میڈم لودھی نے نواز شریف کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دیے ۔ ابتدا میں ان کی یہ خواہش بھی تھی کہ انہیں واشنگٹن میں سفیر مقرر کیا جائے۔ اسلام آباد کے رپورٹر اس حقیقت سے واقف ہیں کہ نواز شریف ، میڈم لودھی کو کسی ایسے عہدے کے لائق نہیں سمجھتے تھے، خیر فوجی بھا ئیوں کی مداخلت کے بعد انہیں یو این او میں تعینات کر دیا گیا۔
گزشتہ چار برسوں سے زیادہ قیام کے دوران ملیحہ میڈم نے صرف “پاکستان کلچر” کے نام پر دنیا بھر سے آئے مندوبین کو بریانی کھلائی یا راحت فتح خان کی گائیکی۔ اگر انہیں کلچر کا اتنا شوق تھا تو وہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں کلچرل اتاشی کے طور پر کام کر سکتی تھیں۔
کوئی دو سال پہلے جب وہ یو این او کے سیشن میں کشمیر پر بولیں تو دنیا کو ظلم و ستم دکھانے کے لئے جو چند تصویریں دکھائیں وہ کشمیری مظلومین کی تھیں ہی نہیں ۔۔ بھارت سمیت بہت سے ممالک نے ان کا اور پاکستان کا خوب ٹھٹھا لگایا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس نالائقی پر انہیں اسی وقت فارغ کر دیا جاتا لیکن ایسا نہ ہوا ۔
اس سال پانچ اگست کو بھارت کی طرف سے کشمیر کا خصوصی سٹیٹس جب معطل کیا گیا تو میڈم ملیحہ لودھی کی نااہلی کھل کر کر سامنے آگئی۔ وہ فوری طور پر یواین او کے کرتا دھرتا تک رسائی حاصل نہ کرسکیں ۔ اور جب ہوئی تو صرف سیلفیاں اور تصویریں فیس بک اور ٹوئٹر پر لگانے تک محدود رہی۔ اسی طرح سیکیورٹی کونسل کے خصوصی اجلاس کے طریقہ کار بارے بھی وہ لاعلم تھیں اور پاکستانی میڈیا کو غلط باتیں فیڈ کرتی رہیں ۔
جولائی2019 میں وزیراعظم عمران خان کے امریکی دورے میں ان کی کئی سینئر افسران کے ساتھ لڑائیاں ، واشنگٹن کے صحافتی اور سفارتی حلقوں میں گردش کرتی رہی ہیں، ان کی کوشش تھی کہ دورہ کو ایسے پیش کیا جائے جیسے واشنگٹن میں بھی سفارت کاری اور سفارت خانے کا کام کاج وہی کر رہی ہیں۔
مثال کے طو پر جب وزیراعظم کا حالیہ دورہ نیویارک ختم ہوا تو پاکستا ن کے سفیر اسد مجید انھیں رخصت کرکے واپس وا شنگٹن چلے گئے، تکنیکی وجوہات کی بنا پر جب وزیراعظم کا جہاز واپس نیویارک لینڈ کیا تو میڈم ملیحہ صحافیوں کو فون کرکے کہتی رہیں کہ یہ خبر ضرور چلائی جائے کہ وزیراعظم کو ائرپورٹ پر ریسیو کرنے کے لئے وہ موجود تھیں اور واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر غائب تھے ۔
اس بات کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی لیکن وہ اپنے امیج کو اعلی حلقوں میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کرتی تھیں ۔ سرکار کے خرچ پر ریٹائر ہو چکے اپنے پسندیدہ لوگوں کو دوبارہ مسلط کرنے کی جو تگ و دو انہوں نے کی اس کی کہانی پاکستان ٹوڈے میں دو ہفتے پہلے چھپ چکی ہے۔ خیر اب اگر ایک ہی صفحے پر عمران حکومت اور فوجی بھائیوں نے میڈیم ملیحہ لودھی کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اسی بہانے ان کی کارکردگی کا آڈٹ بھی فوری طور پر کروا لیا جائے، تاکہ بعد میں سامنے آنے والی کرپشن کی داستانوں پر بھی روک لگ سکے ۔
یاد رہے کہ عمران خان کے حالیہ دور ے میں منیر اکرم بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے جو اس دوران میڈم ملیحہ کی فاش غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہے ہوں گے۔ وزیراعظم بھی میڈم ملیحہ کی کارکردگی سے خوش نہیں تھے ۔ اس کا منظر آپ سوشل میڈیا میں گردش اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کہ جب وہ نیو یارک طیارے سے اترے تو میڈم ملیحہ کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کے سفیر اسد مجید سے مصافحہ کیا۔
♦