مغربی کوسووو کی ایک مسجد کے ایک امام کو برطرف اس لیے کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ڈارون تھیوری سے متعلق خیالات کو درست قرار دیا تھا۔
انسانی ارتقا کے حوالے سے اسلامی اور ڈارون کے نظریے پر بیک وقت یقین کرنا، ڈریلون غاشی نامی امام کو مہنگا پڑ گیا۔ ملک کی سرکاری مذہبی تنظیم کی جانب سے اکتیس سالہ امام کو گزشتہ ماہ مسجد کی امامت کرنے سے روک دیا گیا کیونکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ڈارون تھیوری سے متعلق خیالات کو درست قرار دیا تھا۔
اس تنظیم کی نظر میں غاشی کے خیالات کوسووو کے روایتی اسلام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب غاشی کا کہنا ہے، ” زندگی، ارتقائی عمل سے پیدا ہوئی ہے اور ارتقائی عمل خدا کی جانب سے ہی ہوا۔‘‘ غاشی سمجھتے ہیں کہ اسلام اورسائنس ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں۔
کوسووو میں انسانی ارتقا کی ڈارون تھیوری کو قبول کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہو گی کیونکہ نوے فیصد آبادی مسلمان ہونے کے باوجود بظاہر اس ملک کا تشخص سیکولر ہے۔ کوسوو نے سنہ 2008 میں سربیا سے علیحدہ ہو کر آزادی کا اعلان کیا تھا۔ یہاں شراب نوشی عام ہے اور زیادہ تر لوگ اسلامی لباس کے بجائے مغربی لباس پہننا پسند کرتے ہیں۔
تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں خلیجی ممالک کی جانب سے دی جانے والی خیرات کی مدد سے کوسووو میں سینکڑوں مساجد تعمیر کی گئیں، نئی اسلامی تعلیمات متعارف کرائی گئیں اور مقامی اماموں کو مصر اور سعودی عرب میں اسکالرشپس پر بھی بھیجا گیا۔ ایسے ہی ایک پروگرام کے تحت غاشی کو بھی مسلمانوں کے مقدس شہر مدینہ بھیجا گیا تھا۔ غاشی کے بقول، مدینہ میں جو انتہائی قدامت پسند اسلامی تعلیمات سکھائی گئیں، اس پر وہ عملدرآمد نہیں کرسکے۔
بعد ازاں غاشی نےکوسوو واپسی کے بعد پانچ ہزار افراد کی آبادی والے ایک گاؤں میں دبئی کی امداد سے بنائی گئی ایک مسجد میں بطور امام کام کرنا شروع کر دیا۔ لیکن اب ملک کی ‘ مذہبی ایسٹیبلشمنٹ‘ غاشی کے اسلام سے متعلق ‘ خیالات‘ سے متفق نہیں ہے۔ کوسووو اسلامک کمیونٹی کے ترجمان احمد سادریو کا کہنا ہے،” غاشی کے خیالات اسلام اور ہماری تنظیم کے قوانین کے خلاف ہیں‘‘۔
عالمی سطح پر مسلم دنیا میں ڈارون کی تھیوری سے متعلق مختلف آراء پائیں جاتی ہیں۔ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ژابر حمیتی کے مطابق غاشی کے خیالات متنازعہ ہو سکتے ہیں لیکن انہیں امامت کے عہدے سے برطرف کرنے کے بجائے اس موضوع پر بات چیت ہونی چاہیے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بعض صارفین نے غاشی کی برطرفی کو ملک میں اعتدال پسندی کو ختم کر نے کی ایک کاوش قرار دیا ہے۔
مذہبی امور پر رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی وثار دوریقی نے کوسوو کی اسلامک کمیونٹی کی تنظیم کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان اماموں کے ساتھ تو سخت رویہ نہیں اپنایا جاتا جن پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہیں۔ دوریقی کے مطابق اسلامک کمیونٹی کی تنظیم شدت پسند نظریات کے حامل اماموں کو مقامی مساجد کے اہم ترین عہدوں پر فائز رکھے ہوئے ہے۔
علاوہ ازیں کوسووو کے چار سو سے زائد شہری تنازعات کے شکار ملکوں میں بطور جنگجو حصہ لینے گئے تھے۔ ان میں سے ستر کی موت ہو چکی ہے جبکہ دو سو سے زائد شہری کوسوو واپس لوٹ چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پچاس سے زائد امام کو دہشت گردی سے متعلق مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ان میں سے صرف ایک امام کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ دیگر افراد کو رہا کر دیا گیا۔
کوسوو میں حکام ملک میں انتہا پسند نظریات کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں خصوصاﹰ جنگی علاقوں سے واپس لوٹنے والے جہادیوں کے لیے مختلف پروگرام بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔ کوسوو کی سیکولر حکومت نے سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں خواتین پر اسکارف پہننے کے خلاف پابندی عائد کر رکھی ہے۔
DW
♦