روسل کی جب آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں تنہا تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر کو جاتے نہیں دیکھا۔ ان کی شادی کا دورانیہ کل تین گھنٹے تھا۔یہ ان کی پہلی شادی نہیں تھی بلکہ دوسری، تیسری یا چوتھی بھی نہیں۔ درحقیقت ان کی اتنی شادیاں ہو چکی ہیں کہ انھیں اس کی صحیح تعداد بھی یاد نہیں۔
روسل کا یہ خوفناک طرزِ زندگی ان کے دفتر میں پیش آنے والے ایک واقعے سے شروع ہوا۔
وہ وہاں شوخ میک اپ کیے چست کپڑوں میں ملبوس لڑکیوں کو آتا اور انتظار کرتا دیکھتیں۔ پھر ادھیڑ عمر افراد آتے اور انھیں ساتھ لے جاتے۔وہ کہتی ہیں ’وہ اتنی نوجوان اور خوبصورت لڑکیاں تھیں۔ میں سمجھ نہیں سکتی کہ کوئی بھی لڑکی خود کو ایسے کس طرح بیچ سکتی ہے۔‘
روسل اس وقت اپنے خاندان سے الگ تھلگ تھیں اور اپنی بہن رولہ کا خرچ بھی اٹھا رہی تھیں۔ لیکن ان مشکل حالات کے باوجود انھوں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی بقا کے لیے کسی مرد پر انحصار نہیں کریں گی۔جب کبھی مرد اپنا نمبر کاغذ کے پرزوں پر لکھ کر ان کے حوالے کرنے کی کوشش کرتے تو وہ انھیں نظرانداز کر دیتیں۔
ایک دن ایک شخص ان کے دفتر آیا اور روسل سے بات چیت شروع کر دی۔ ان دونوں نے ان کے ماضی کے بارے میں بات کی اور یہ کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتی ہیں، ملازمت کیوں کر رہی ہیں، تعلیم حاصل کیوں نہیں کر رہیں۔ روسل کو یہ احساس ہوا کہ کوئی ان کے بارے میں فکرمند ہے۔
روسل کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی تھی۔ بغداد میں اتنی کم تنخواہ پر گزارہ کرنا بہت مشکل تھا۔خودمختار رہنے کے عہد کے باوجود روسل اب ایک شوہر کا خواب دیکھنے لگیں۔ ایک ایسا فرد جو ان کا خیال رکھے۔وہ شخص روزانہ ان کے دفتر آنے لگا اور ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہا۔ آہستہ آہستہ روسل اس کی جانب مائل ہوتی گئیں۔
چند ہفتوں بعد اس شخص نے انھیں شادی کی پیشکش کر دی۔ وہ انھیں بغداد کے علاقے کاظمین لے گیا۔ جب وہ شادی دفتر میں داخل ہوئے تو روسل بہت پرجوش تھیں۔شادی کی تقریب بہت مختصر تھی۔ مولوی نے چند صیغے پڑھے اور روسل سے دریافت کیا کہ کیا انھیں 250 ڈالر کے مساوی رقم بطور مہر قبول ہے اور پھر انھیں ایک معاہدہ دیا گیا۔ روسل اسے پڑھ نہیں پائیں لیکن اگر وہ ایسا کر بھی لیتیں تو شاید اس میں کوئی خامی تلاش نہ کر پاتیں۔
نکاح کے چند منٹ بعد ان کا شوہر انھیں قریب ہی ایک فلیٹ میں لے گیا تاکہ ان سے جنسی تعلق قائم کر سکے۔ روسل اگرچہ کچھ نروس تھیں لیکن اپنے اور اپنی بہن کے لیے ایک مناسب گھر کا خیال ان کے ذہن میں موجود تھا۔
وہ اپنے شوہر کے پیچھے پیچھے خواب گاہ میں چلی گئیں اور دروازہ بند کرتے ہوئے یہ دعا کی کہ یہ شخص ان کا خیال رکھے اور دونوں ساتھ طویل زندگی گزاریں۔
اس شادی کے ابتدائی چند دن روسل کے لیے واقعی کسی پریوں کی کہانی جیسے ہی ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا ہے ’مجھے لگتا تھا کہ میرے کندھوں سے ایک بھاری بوجھ سرک گیا ہے۔ آخر وہ وقت آ گیا تھا جب ہر چیز کی فراہمی میری ذمہ داری نہیں تھی۔‘
لیکن پھر چند ہفتوں بعد ان کا شوہر غائب ہو گیا۔روسل نہیں جانتی تھیں کہ ان کی شادی ختم ہو چکی ہے بلکہ اس کے خاتمے کی تاریخ کا تعین اس کی ابتدا سے قبل ہی ہو گیا تھا۔ روسل اور اس شخص کے درمیان ’متعہ‘ ہوا تھا۔
متعہ کیا ہے؟
نکاحِ متعہ ایک مذہبی عمل ہے جسے شیعہ مسلک میں وقتی شادی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں خاتون کو شادی کے لیے رقم دی جاتی ہے۔ سنی اکثریتی ممالک میں نکاحِ المسیار میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق صدیوں پہلے اس قسم کا نکاح عموماً تاجر اور مقاماتِ مقدسہ کا دور کرنے والے وہ مرد کرتے تھے جو اپنی بیویوں سے دور ہونے کی وجہ سے کسی ساتھی کے متلاشی ہوتے تھے۔
نکاحِ متعہ ایک معاہدے کی بنیاد پر ہوتا ہے جس میں شادی کی مدت اور عارضی بیگم کو اس کے عوض دی جانے والی رقم درج ہوتی ہے تاہم یہ معاہدہ زبانی بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی مولوی کی جانب سے تصدیق ضروری نہیں تاہم عموماً مولوی اس عمل کے لیے موجود ہوتا ہے۔
اس کی مدت ایک گھنٹے سے لے کر 99 برس تک کچھ بھی ہو سکتی ہے اور شوہر پر خاتون کے نان نفقے کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ وہ جب چاہے اس شادی کو ختم بھی کر سکتا ہے۔اس عمل کے بارے میں مسلم علما کی رائے منقسم ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ جسم فروشی کو قانونی شکل دیتا ہے اور اس حوالے سے بھی بحث جاری ہے کہ یہ شادی کس قدر مختصر مدت کی ہو سکتی ہے۔
روسل جیسی لڑکیوں کے معاملے میں متعہ کا عمل بچوں سے جسم فروشی کو ممکن بناتا ہے۔ یہ شادیاں عراق کے عائلی قوانین کے تحت بھی نہیں آتیں۔ عراق کے فوجداری قوانین کے مطابق اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے غیرازدواجی تعلقات قائم کرتا ہے تو اگر لڑکی کی عمر 15 سے 18 برس کے درمیان ہے تو سات برس جبکہ لڑکی کے 15 برس سے کم عمر ہونے کی صورت میں اسے 10 برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
روسل نے اپنے شوہر کے غائب ہونے کے بعد اس مولوی سے ملاقات کا فیصلہ کیا جس نے ان کا نکاح پڑھایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ شخص بظاہر ان کی آمد کا منتظر دکھائی دیا۔اس مولوی نے روسل کو مشورہ دیا کہ وہ نکاحِ متعہ کا عمل جاری رکھے اور مزید شادیاں کرے کیونکہ اس کی مشکلات کا خود اس کے پاس اور کوئی حل نہیں۔ اس مولوی نے روسل کی تصاویر بھی کھینچیں۔
روسل جانتی تھی کہ وہ اپنی تنخواہ کے بل بوتے پر گزارہ نہیں کر سکتیں اور تعلیم کی کمی کسی بہتر نوکری کی تلاش میں بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ یہ حقیقت کہ وہ اب کنواری نہیں رہیں، ان کے لیے کسی مستقل شوہر کی تلاش میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔’چنانچہ وہ مولوی رابطہ کار بن گیا۔ وہ مجھے کام دیتا اور میرے پاس اس راستے پر چلنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا‘۔
روسل نے یہ تو نہیں بتایا کہ انھیں کتنی آمدن ہوتی ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ مولوی گاہک سے رقم لیتا ہے اور پھر انھیں ادائیگی کرتا ہے۔ روسل کے مطابق اب تک ان کے نکاحوں کی مدت چند گھنٹوں سے کئی ہفتوں پر مشتمل رہی ہے۔
’جب شیخ (مولوی) کال کر کے کہتا ہے کہ میں نے تمہارے لیے مناسب شخص تلاش کر لیا ہے تو میں نہ نہیں کر سکتی۔‘
روسل اب تک درجنوں مردوں کے ساتھ نکاحِ متعہ کے بعد ہم بستری کر چکی ہیں۔ یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ خود انھیں بھی صحیح عدد یاد نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مولوی ہی انھیں مانع حمل انجکشن بھی فراہم کرتا ہے تاکہ وہ حاملہ نہ ہو جائیں۔ ’یہ سلسلہ بہت پھیلا ہوا ہے۔ میرے جیسی بہت سی اور لڑکیاں بھی ہیں۔‘
کاظمین
کاظمین اسلام کے شیعہ مسلک کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں شیعوں کے ساتویں امام موسیٰ کاظم کے مزار پر حاضری کے لیے آتے ہیں۔اس مراز کے اردگرد کے علاقے کی گلیاں ایسے دفاتر سے بھری ہوئی ہیں جہاں لوگ جج کے سامنے پیش ہو کر شادی کے سرٹیفیکیٹ کے حصول سے قبل اسلامی قانون یا شریعہ کے تحت شادی کروانے کے لیے آتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر تو مستقل شادی کرتے ہیں لیکن کچھ نکاحِ متعہ کے خواہشمند بھی ہوتے ہیں۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ عراق میں غیرقانونی ہونے کے باوجود کاظمین میں نکاحِ متعہ کی سہولت عام موجود ہے۔ بی بی سی کے صحافی نے بھیس بدل کر جن دس مولویوں سے رابطہ کیا ان میں سے آٹھ نے ایسے نکاح کروانے کی حامی بھری۔
ان آٹھ میں سے دو تو ایسے تھے جو نو برس کی بچی سے بھی ایسا نکاح کروانے پر آمادہ دکھائی دیے تاہم یہ بات جاننا ناممکن ہے کہ عراق میں کمسن بچیوں سے نکاحِ متعہ کا عمل کتنے وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے۔
کربلا سے تعلق رکھنے والے ایک سابق شیعہ عالم غیث تمیمی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سینکڑوں متعہ نکاح ہوتے دیکھے ہیں لیکن ان میں سے کوئی کسی کمسن بچی سے نہیں کیا گیا۔ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ سنّی بھی اس قسم کا نکاح کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ چونکہ شیعہ مولوی صاحبانِ اقتدار کے قریب ہیں اس لیے وہ بےفکر ہو کر ایسا کرتے ہیں۔
بی بی سی نے اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ عراقیوں کی جانب سے یہ معاملہ اٹھائے جانے کے بعد کیا۔
بی بی سی کی عراقی اور برطانوی ٹیم نے گیارہ ماہ تک تحقیقات کیں جس دوران انھوں نے خفیہ طور پر ملاؤں کی عکس بندی کی اور ان خواتین سے رابطہ کیا جن کا جنسی طور پر بےجا فائدہ اٹھایا گیا تھا اور ان مردوں سے بھی بات کی جنھوں نے علما کو پیسے دیے کہ وہ انھیں ایسی دلہنیں ڈھونڈ کر دیں۔
کاظمین میں واقع شادی دفاتر میں مولویوں نے ان سے بھیس بدل کر ملنے والے بی بی سی کے صحافی کو اس بارے میں بتایا۔
بغداد سے تعلق رکھنے والے ایک ملا سید رعد نے بتایا کہ شرعی قانون میں متعہ کے لیے وقت کی قید نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک شخص جتنی خواتین سے چاہے شادی کر سکتا ہے۔ آپ ایک لڑکی سے آدھے گھنٹے کےلیے شادی کر سکتے ہیں اور اس کے اختتام پر کسی اور سے شادی کر سکتے ہیں‘۔
انھوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ نکاحِ متعہ کے بعد صحافی اور ان کی اہلیہ کے لیے ہوٹل کے بہترین کمرے کا انتظام بھی کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ عراق میں غیرشادی شدہ جوڑوں کے لیے ہوٹل میں بطور جوڑا کمرہ لینا غیرقانونی نہیں۔کچھ مولوی اس بات سے بھی بےفکر دکھائی دیے کہ دلہن کی عمر اتنی کم ہے۔
عراق میں شادی کی قانونی عمر 18 برس ہے تاہم جج مخصوص معاملات میں 15 برس کی لڑکیوں کو شادی کی اجازت دے دیتے ہیں۔ شریعہ کے مطابق کسی بھی لڑکی کی شادی اس کے سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد ہو سکتی ہے۔شریعہ کے مطابق مولوی پر لازم ہے کہ وہ کمسن بچی کے معاملے میں اس کے والدین کی اجازت لے لیکن سید رعد نامی مولوی صحافی کی اس لڑکی سے نکاحِ متعہ کروانے پر تیار تھا جس کے بارے میں رپورٹر نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ 13 برس کی کنواری بچی ہے۔
مولوی نے اس معاملے میں صرف بچی سے جنسی تعلق قائم نہ کرنے کی صلاح دی اور متبادل کے طور پر ’اینل سیکس‘ کی تجویز دی۔ وہ یہ نکاح اس بچی سے ملاقات کیے بغیر فون پر پڑھانے کو بھی تیار تھا۔
اس نے صحافی سے چند منٹ کے اس عمل کے 200 ڈالر طلب کیے اور یہ پیشکش بھی کی کہ وہ ایک اور لڑکی بھی فراہم کر سکتا ہے۔’میں اس کی تصویر آپ کو بھیج سکتا ہوں۔ پھر آپ اس سے معاملہ طے کر لیں۔ پھر جب آپ آئیں گے تو وہ آپ کی ہو گی۔‘
سید رعد نے نکاحِ متعہ کے لیے دستیاب ایک نوجوان لڑکی کی بی بی سی کے انڈر کور صحافی سے ملاقات بھی کروائی۔ مولوی کا کہنا تھا کہ وہ 300 ڈالر کے عوض اس کے ساتھ شب بسری کر سکتا ہے۔ جب رپورٹر نے نکاحِ متعہ کرنے سے انکار کر دیا تو سید رعد نے پیشکش کی وہ اس کی مدد سے رپورٹر کے لیے مزید نوجوان دلہن ڈھونڈ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ممکن ہے کہ یہ میرے لیے چودہ، پندرہ یا سولہ برس کی لڑکی ڈھونڈ لائے۔ میں اس کے ساتھ جا کر لڑکی کو دیکھوں گا اور اگر وہ نوجوان ہوئی تو میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا۔‘
بغداد سے 120 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک اور مقدس شہر کربلا میں شریعہ شادی دفتر کے سب سے سینیئر مولوی شیخ عماد السعدی سے جب بی بی سی نے دریافت کیا کہ وہ نکاحِ متعہ کے حق میں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ شریعت میں اس کی اجازت ہے لیکن وہ کبھی ایسا نکاح نہیں پڑھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کرنے والے کو جیل بھیج دیا جائے گا چاہے وہ مولوی ہی کیوں نہ ہو۔‘
لیکن عماد السعدی کے برعکس مقدس مزارات کے اردگرد کی گلیوں میں کچھ مولوی اور ہی مشورے دیتے دکھائی دیے۔ سید مصطفیٰ سلاوی نے کہا کہ وہ بخوشی ایسی شادی کروانے پر تیار ہیں جس میں لڑکی کے بارے میں انھیں بتایا گیا کہ اس کی عمر 12 برس ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’نو برس سے زیادہ ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ شریعت کے مطابق کوئی مسئلہ نہیں جو دل چاہے کریں۔‘ چند دن بعد جب ان سے دوبارہ رابطہ کیا گیا کہ وہ کیا کوئی اور لڑکی فراہم کر سکتے ہیں، وہ تیار دکھائی دیے۔
ان کا کہنا تھا ’وہ آپ کو تصویر نہیں بھیجیں گی لیکن جب آپ ان سے بالمشافہ ملاقات کریں گے تو دیکھیں گے وہ اچھی لڑکیاں ہیں، خوبصورت لڑکیاں ہیں۔ اگر آپ کو ایک لڑکی پسند نہ آئی تو دوسری ہو گی اور پھر تیسری۔‘
بی بی سی نے ان مولویوں سے جن کی خفیہ عکس بندی کی گئی تھی جب بعدازاں رابطہ کیا تو سید رعد نے نکاحِ متعہ کروانے سے انکار کیا جبکہ باقیوں نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔
سید رعد نے بتایا تھا کہ وہ عراق کے سب سے بااثر اور بارسوخ شیعہ عالم آیت اللہ العظمیٰ علی سیستانی کے مقلد ہیں۔
بی بی سی نے نجف میں آیت اللہ سیستانی کے دفتر سے ثبوتوں کے ہمراہ رابطہ کیا اور نکاحِ متعہ پر ان کا موقف دریافت کیا۔
اس سلسلے میں آیت اللہ سیستانی کے دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ ’اگر ایسا کچھ اس طریقے سے ہو رہا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ نکاحِ متعہ کو جنسی عمل کی فروخت کے لیے اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے کسی خاتون کی ناموس پر حرف آئے۔‘
جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ ’کسی لڑکی کے ولی یا سرپرست کو اس کی اجازت کے بغیر اس کی شادی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اگر شادی قانون کے خلاف ہے تو اسے شادی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے وہ مشکل میں پڑ سکتی ہے۔‘
علی ایک 40 سالہ عراقی ہیں جو مولویوں کو نکاحِ متعہ کے لیے لڑکیاں تلاش کرنے کی ذمہ داری دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’یہ کوئی گناہ نہیں۔ یہ دستیاب ہے اور ارزاں بھی اور اس میں کوئی برائی نہیں۔‘
انھوں نے بتایا ’بہت سے(مولوی) یہ کام کرتے ہیں لیکن میں صرف دو کی خدمات حاصل کرتا ہوں کیونکہ وہ میری مرضی کی لڑکیاں فراہم کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مولوی کے پاس تصاویر کا البم ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان کے دفتر میں کئی لڑکیاں موجود ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو ان میں سے کوئی پسند ہے تو آپ اسے لے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر البم دوسری چوائس ہے۔‘
علی کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر 16 برس اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تجربہ کار ہوتی ہیں اور کمسن لڑکیوں کے مقابلے میں ان پر خرچ بھی کم آتا ہے۔
انھوں نے کہا ’12 سالہ لڑکیاں کنواری ہوتی ہیں اس لیے زیادہ مہنگی ہوتی ہیں اور مولوی ان کے نکاح سے 800 ڈالر تک کماتا ہے۔‘
روسل بھی تسلیم کرتی ہیں کہ کنواری لڑکیوں کی مانگ زیادہ ہے۔
’بہت سے مولوی نوجوان کنواری لڑکیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کیونہ بہت سے گاہک ان کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ لوگ ان کے لیے زیادہ رقم دیتے ہیں۔‘
روسل کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولویوں کے لیے کام کرنے والی لڑکیوں کے لیے حتمی عمر 20 برس ہے۔
عراق میں بغیر شادی کے کنوار پن کا خاتمہ خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ عراق میں لوگ اسے خاندان کی عزت پر لگا دھبہ مانتے ہیں۔
مونا کی عمر 14 برس تھی جب ان کا نکاحِ متعہ ایک ایسے شخص سے ہوا جو سکول سے واپسی پر ان کا پیچھا کرتا تھا۔
اب وہ 17 برس کی ہیں اور خاندان والے چاہتے ہیں کہ ان کی شادی ہو جائے لیکن وہ خوفزدہ ہیں کہ ان کے مستقل شوہر کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کنواری نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے چچا نے اپنی بیٹی کو اس لیے قتل کر دیا تھا کہ اس کی ایک لڑکے سے دوستی تھی۔ مونا کا کہنا ہے کہ وہ خودکشی کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہی ہیں۔’میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر مجھ پر زیادہ دباؤ آیا تو میں یہ کر گزروں گی۔‘
بی بی سی سے اس بات چیت کے بعد مونا اپنا گھر چھوڑ کر جا چکی ہیں۔
لیکن یہ صرف کم عمر لڑکیاں ہی نہیں جو نکاحِ متعہ کی وجہ سے استحصال کے خطرے کا شکار ہیں۔ رعنا کی عمر اب 20 برس سے زیادہ ہے۔ پانچ برس قبل داعش کے جنگجوؤں کے حملے کے بعد گھر سے بھاگ کر بغداد آنے کی وجہ سے ان کے شوہر نے انھیں طلاق دے دی تھی۔
بغداد میں ان کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی اور اس کی جانب سے شادی کی پیشکش پر وہ خوش تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مستقل شادی ہے۔ انھوں نے شادی کا معاہدہ پڑھنے کی تکلیف ہی نہیں کی کیونکہ انھیں اپنے شوہر پر اعتماد تھا۔‘
اگر وہ ایسا کر بھی لیتیں تو شاید جان نہ پاتیں کہ یہ نکاحِ متعہ ہے کیونکہ نکاح نامے میں کوئی فرق نہیں ہوتا بلکہ نکاح خواں بریکٹ میں صرف لفظ متعہ لکھ دیتا ہے۔
رعنا بتاتی ہیں ’وہ میری زندگی کے تین سب سے پرمسرت دن تھے۔ جب آپ ٹوٹے ہوئے ہوں اور کوئی آپ کو امید دلا دے تو وہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔‘مگر پھر ایک دن ان کے شوہر شاپنگ پر انھیں ساتھ لے گئے اور پھر غائب ہو گئے۔
جب رعنا کے خاندان کو علم ہوا کہ ان کا نکاح عارضی تھا، تو انھوں نے رعنا کو چھوڑ دیا کیونکہ معاشرے میں ایسے نکاح کو قبول نہیں کیا جاتا۔وہ کہتی ہیں ’جب آپ کی شادی ہوتی ہے تو آپ کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ وہ آپ کا شوہر ہے۔ آپ کو بہتر مستقبل کا یقین آ جاتا ہے لیکن پھر یہ سب جھوٹ نکلا۔ ہمارے لیے مولوی بہت خاص ہوتے ہیں لیکن پھر آپ کو علم ہوتا ہے کہ عمامہ پہنا ہوا یہ شخص دھوکے باز ہے۔‘
کچھ مولوی نکاحِ متعہ کو بیواؤں اور مطلقہ خواتین کے لیے آمدن کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین کو بھی اپنی جنسی خواہشات کے حصول کے لیے مذہب میں جائز طریقہ چاہتی ہیں۔تاہم روسل یہ ماننے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ممکن ہے کہ کچھ کی خواہش ہو لیکن میں نہیں سمجھتی کہ بیشتر لوگ اس راہ پر چلنا چاہیں گے۔ کوئی نوعمر لڑکی یہ کیوں کرنا چاہے گی۔‘
آیت اللہ سیستانی کے دفتر نے بی بی سی کو بتایا کہ جس استحصال کا مشاہدہ کیا گیا ہے اس کی وجہ حکام کی جانب سے قوانین کے نفاذ میں ناکامی ہے۔عراقی حکومت کے ایک ترجمان نے اس پر کہا کہ ’اگر خواتین مولویوں کے خلاف پولیس میں شکایت ہی نہیں لے جائیں گی تو حکام کے لیے کوئی قدم اٹھانا بہت مشکل ہے۔‘لیکن مونا جیسی لڑکیوں کا، جو نہیں چاہتیں کہ ان کے خاندان کو ان کے نکاحِ متعہ کا علم ہو، پولیس کے پاس جانا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
اس بارے میں کوئی اعدادوشمار موجود نہیں کہ عراق میں کتنے نکاحِ متعہ ہوئے لیکن اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ 2003 میں عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے بعد ان میں اضافہ ہوا۔
روسل کی کہانی کی تمام تفصیلات کی تصدیق ممکن نہیں لیکن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ان کی کہانی کے کئی جزو ایسی دیگر لڑکیوں کی کہانی سے متماثل ہیں جو مولویوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوئیں۔
روسل آج بھی اس دن کو یاد کر کے پچھتاتی ہیں جب انھوں نے اس راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ ’کوئی بھی لڑکی جب یہ شروع کرتی ہے تو سمجھیں اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔‘
عراق میں نکاحِ متعہ کے برعکس شرعی طریقے سے ہونے والی مستقل شادیاں بھی اس صورت میں لڑکیوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں اگر ان کی سرکاری طور پر تصدیق نہ کروائی جائے۔
بغداد کی صدر سٹی عدالت میں جوڑے اپنی شادی کی عدالتی تصدیق کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ وہیں بی بی سی کو حنین ملیں جن کی عمر 13 برس تھی۔ ایک مولوی نے چھ ماہ قبل ان کا نکاح پڑھایا تھا اور اب وہ حاملہ ہیں۔
کمسن لڑکی کی شادی کرنے پر حنین کے والد اور ان سے شادی کرنے پر ان کے شوہر کو دو برس قید ہو سکتی تھی لیکن عدالت نے انھیں صرف 50 ڈالر کے مساوی جرمانہ کیا۔
اس معاملے میں جج اپنے فیصلے کا دفاع کرتے نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کم عمری میں شادی بعض اوقات ان کمسنوں کے لیے مفید ہوتی ہے۔ وہ اس پر رضامند تھی اور یہ چاہتی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ شادی زندگی کی ایک حقیقت ہے۔‘
اس جج کے سامنے شادی کروانے والوں کی ایک طویل قطار تھی۔ ان میں سمیع عقیبی بھی تھے جو اپنی 14 سالہ بیٹی کی شادی کروانے آئے تھے۔ان کا کہنا تھا ’ہمارے نوجوان 18 سالہ لڑکیوں میں بھی دلچسپی نہیں لے رہے۔ انھیں 13، 14، 15 سال کی لڑکیوں کی تلاش ہے۔‘اس عدالت کے عملے کے مطابق گذشتہ چھ ہفتے میں 126 کم عمر لڑکیوں کی شادیاں ہوئی ہیں۔
عملے کی رکن اور سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ ’ان میں سے زیادہ تر طلاق پر منتج ہوں گی۔ چار پانچ ہی کامیاب ہو سکیں گی۔ اس کم عمری میں جوڑے ذمہ داریاں سنبھالنے کے لائق نہیں ہوتے۔‘یعنار محمد کا کہنا ہے کہ عراقی معاشرے میں مطلقہ لڑکی کا بھی کوئی مستقبل نہیں۔’ایسی لڑکی یا خاتون کو ان کا خاندان بھی رد کر دیتا ہے۔ آپ کا کوئی مستقبل نہیں۔ آپ ایک داغدار فرد ہیں۔‘
روسل جب اپنی بہن کا ذکر کرتی ہیں تو ان کا چہرہ چمک اٹھتا ہے۔ رولہ ابھی تک اس راہ پر نہیں چلیں جس پر روسل کو چلنا پڑا اور وہ اپنی زندگی کو مختلف بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔روسل کہتی ہیں ’مجھے ہمہ وقت اس کا خیال رہتا ہے۔ میں اسے بچانے کے لیے کوشاں ہوں۔ میرے خیال میں وہ اچھی رہے گی۔ وہی مجھے اس زندگی سے بچائے گی۔‘
اس مضمون میں کچھ نام شناخت چھپانے کے لیے تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
BBC Urdu