تامل ٹائیگرز کے خود کش حملوں نے ہندوفوبیا کوجنم کیوں نہیں دیا

طارق احمدمرزا

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنی حالیہ تقریر میں دنیا میں بڑھتے اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی بات کی جوآج کی دنیا میں ایک حساس نوعیت کاایک سلگتا ہواکثیرالجہتی اورنہ ختم ہونے والاموضوع ہے۔عمران خان نے اپنی تقریرمیں یہ شکوہ کیا کہ جب تامل ٹائیگرز خود کش حملے کر رہے تھے تو کسی نے اسے ہندودہشت گردی قرارنہیں دیا حالانکہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ خودکش حملے کرنے والے یہی لوگ تھے جن کی اکثریت ہندوتھی۔

اس کے برعکس جب یہی کام کچھ مسلمانوں نے کیا تو اسے اسلامی دہشت گردی کا نام دے دیا گیا جس سے مغربی دنیامیں اسلاموفوبیانے جنم لیا۔

وزیراعظم پاکستان کے لئے تامل ٹائیگرز کی مثال بطوردلیل دینامناسب تھا یا نہیں؟۔ راقم نے جب ان کے اٹھائے ہو ئے اس اہم اور سنجیدہ سوال پراپنی ناقص عقل کے گھوڑے کو قیاس آرائی کے میدان میں دوڑانے سے قبل تامل خود کش حملوں کے بارہ میں کچھ معلومات اکٹھی کیں تو پہلے تو یہ بات سامنے آئی کہ ایسی حرکت کرنے والے کسی ہندو تامل نے خود کش حملہ کرتے وقت شری کرشناؔجی، شیواجیؔکی جے،وشنوؔ،برہماؔکی جے ،جے ہنومانؔ کی،دُرگاؔماتاجی کی خیر، ہرے راماؔ،یا ہندتوا کی ہووے جے جے کار کا نعرہ نہیں لگایا۔نہ ہی تامل خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں نے یہ کہا کہ یہ حملہ اس لئے کیا گیا کہ ہندومذہب یا ہندوتواخطرے میں پڑگئی تھی۔

تامل فدائین نے خود کش حملوں کے وقت سروں پہ وید یا گیتا کی عبارات سے معرّااورمزّین کلاہ بھی نہیں باندھی ہوتی تھیں۔نہ ہی کسی تامل ٹائیگربمبار کی کوئی ایسی ویڈیو مجھے دستیاب ہو سکی جس میں وہ خود کش حملہ پر روانہ ہونے سے پہلے خود کش جیکٹ باندھے، ایک ہاتھ میںہندومذہب کی کوئی مقدس کتاب اور دوسرے ہاتھ میں مشین گن تھامے ’’کرما دھرما‘‘ سے متعلق کوئی ایسااشلوک یامنترا پڑھ رہا ہوجس میں ’’قتال‘‘کو ان کے مذہب کی رُوسے آزادی،یُدھ،نروان یا شکتی حاصل کرنے کا اعلیٰ ترین ذریعہ بتایاگیا ہو۔

مغربی ممالک بشمول یورپ،برطانیہ ،کینیڈا،آسٹریلیا،امریکہ میں بسنے والے آ زادی پسند تامل نژاد ہندوافراد سری لنکا یاتراکرنے کے بعد’’ریڈیکلائز‘‘ہوکرواپس ان ممالک کے انڈرگراؤنڈ سٹیشنوں، بازاروں،کلبوں وغیرہ میں ہندومت یا ہندتوا کے نام پرکھلے عام ا ور بے دریغ فائرنگ یابم دھماکے کرکے اپنے تئیں ہندو مذہب کا بول بالانہیں کرتے تھے۔اسی لئے تامل ٹائیگرز کی کارروائیوں کو نہ تو’’ہندودہشت گردی‘‘ قراردیا جانے کا کوئی جوازپیداہوااور نتیجتاً نہ ہی ہندوفوبیانام کاکوئی رویہ،احساس یا خوف بھی دنیا میں جنم لے سکا۔

جہاں تک معلومات دستیاب ہو سکی ہیں،تامل ٹائیگرز نے اپنی جنگ کو ہندومَت یا ہندتواکی مذہبی جنگ کبھی قرار نہیں دیا،نہ ہی کُل عالم کو خود کش حملے کرکر کے اپنے زیرنگین کر لینے کاعزم ظاہر کیا ۔

حالانکہ برصغیر کی قدیم ترین تامل زبان کے مہاشاعرکنیان پُنگندرانار نے تین ہزارسال قبل تامل کو یہ سلوگن دیاتھاکہ ’’یادھم اُورے یاورم کلیر‘‘ یعنی ہم سب کے ہیں اور سب ہمارے ہیں۔یہ کسی پر اپنی ملکیت کادعویٰ یا زبردستی کسی کواپنا بنانے کانہیں بلکہ اپنائیت کا اظہارتھا۔

اس کے برعکس ہمارے قومی شاعر’’دانائے راز‘‘ علامہ اقبال،ؔ طارق بن زیاد کی زبان سے ’’ہرملک ملکِ ما است کہ ملکِ خدا ئے است‘‘کہلواتے ہیں تو ہنستے ہوئے اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر رکھادکھاتے ہیں، (’’خندیدو دستِ خویش بہ شمشیربُردوگفت‘‘)۔یہاں ’’اپنائیت‘‘ کااظہارخدا کے ہر مُلک کو بزورشمشیراپنی مِلک بنالینے کاسلوگن دے کرکیاگیا۔ایسے میں اسلاموفوبیا نے ہی جنم لینا ہے نہ کہ ہندوفوبیا نے۔

٭

Comments are closed.