سلمان حیدر
کسی ملک کی حکومت نے اپنی ضرورت سے کہیں بڑے سائز کی فوج رکھی ہوئی تھی۔ فوج نہ صرف مسلح تھی بلکہ کاہل آرام طلب اور سہولتوں کی عادی بھی ہو چکی تھی۔ جب تک اردگرد کے علاقوں کے وسائل کی لوٹ مار سے کام چلتا رہا تب تو بہت واہ واہ رہی اس فوج کی مضبوطی اور حکومت کی کامیابی کی لیکن جب فوج آرام طلب ہو گئی اور اردگرد کے علاقوں میں کچھ مضبوط اور باقی اس لوٹ مار کے ہاتھوں کنگال ہو گئے تو معاملات بگڑنے لگے۔
اب اس ملک کی فوج کی مضبوطی اور حکومت کی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ فوج اپنے معاوضے میں اضافے کے لیے ہر کچھ مہینے بعد بادشاہ کے محل کو گھیر لیا کرتی تھی۔ ایسے میں اگر بادشاہ اضافہ کر دیتا تو اسے مہلت مل جاتی تھی اور اگر ایسا نہ کر پاتا تو فوج اسے معزول کر کے کسی بھی بھائی بھتیجے کو اس شرط پہ تخت پر بٹھا دیتی تھی کہ وہ مطلوبہ اضافہ کر دے گا۔
نیا بادشاہ کچھ خزانے میں سے نکال کر کچھ ٹیکس بڑھا کر اضافہ کر دیتا تھا۔ بات کچھ مہینے کو ٹل جاتی تھی لیکن معیشت ٹیکس لگ لگ کر تباہ ہوئی جا رہی تھی۔ سو فوج کا گزارہ اس اضافے کے بعد بھی چند مہینے سے زیادہ نہیں چلتا تھا۔ ان چند مہینے بعد پھر گھیراو اور پھر معاوضے میں اضافے کا مطالبہ۔ نتیجہ وہی ٹیکس میں اضافہ اور بدحالی میں اضافہ۔
آخر کار اگلا کام فوج میں تقسیم کا ہوا۔ فوج میں سپہ سالار کے چہیتے اور اس کے قبیلے کے سالاروں کو زیادہ مراعات ملتی تھیں باقی کو کم۔ اب ان میں اضافے سے ملنے والے وسائل کی تقسیم پر اختلافات شروع ہوئے۔ آہستہ آہستہ مختلف قبیلوں اور ذاتوں پر مشتمل شاہکاروں نے جتھے بنا لیے۔
ایک جتھہ حکومت کے اضافے سے مطمئن ہو جاتا تو دوسرا اس اضافے میں اپنے حصے پر مطمئن نہ ہوتا اور گھیراو کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا۔ ہوتے ہوتے یہ وقت آیا کہ کوئی فرد اس ملک پر حکمرانی کو تیار نہیں تھا۔ نہ کوئی شہزادہ نہ کوئی اس کا بھانجا بھتیجا۔ ایسے میں فوج نے ایک فقیر کو لالچ دیا کہ ہم تمہیں بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ فقیر تیار ہو گیا۔
فقیرنے بادشاہ بنتے ہی حکم دیا کہ خزانے سے پیسے نکالے جائیں اور حلوے کی دیگیں پکائی جائیں اور سارے ملک کے فقیروں کو کھلائی جائیں۔ کام شروع ہو گیا۔ سپہ سالار نے اسے ڈرانے کو کہا کہ بادشاہ سلامت ہمسایہ ملک کی فوجیں حملہ کرنے آ رہی ہیں۔ اس نے کہا اور دیگیں پکاو۔ اگلے دن سپہ سالار نے کہا دشمن فوجیں سرحد تک آ پہنچیں۔ بادشاہ نے کہا اور دیگیں پکاو۔
اگلے دن اس فقیر بادشاہ نے کہا سپہ سالار کو بلایا اور کہا کہ کہاں ہیں بھی دشمن کی فوجیں۔ سپہ سالار نے کہا کہ میں آپ کو ہوشیار کرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ فوج تو کوئی نہیں۔ فقیر نے کہا بات سنو میں نے دنیا کے کونے کونے سے بھیک اکھٹی کی ہے میں جانتا ہوں کہ جس ملک میں فقیر کو بادشاہ بنانے کی نوبت آ جائے اس پر کوئی حملہ کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔۔۔
چلو شاباش یہ تلوار یہاں رکھو۔۔۔یہ پکڑو دیگ کا چمچہ اور خزانے میں کچھ بچا ہو تو دیگ پکا لینا اس ملک کے بادشاہ بھی آج سے تم ہی ہو اور باورچی بھی۔۔۔
♦