محمدحسین ہنرمل
چند روز پہلے بھی میں نے اپنے ایک مضمون میں ملک کے تعلیمی اداروں میں غیراخلاقی سرگرمیوں اور منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں لکھاتھا۔آج پھر مکررعرض کرتاہوں کہ اس ملک کے ذمہ دار لوگ آخر اِن اداروں میں پڑھنے والوں کے مستقبل داو پرلگانے پر کیوںتلے ہوئے ہیں؟ کیا تعلیمی اداروں میں ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے بچے اور بچیاں اپنے والدین کی امانت نہیںہے ؟
اگر یہ امانت ہے تو پھرسوال یہ ہے کہ ان امانتوں میں خیانت کرنے والوں کے خلاف ریاست مستقل بنیادوں پر اقدامات اب بھی نہیں تو کب اٹھائیں گی ؟ آپ ملک کے جس بھی اعلیٰ یونیورسٹی اور کالج میں جائیں وہاں پر آپ کو ایک لتھڑا ہوا ماحول ملے گا۔اول تو ان تعلیمی اداروں میںاُس لیول کی تعلیم نہیں دی جارہی جوکماحقہ طلبا اور طالبات کا حق بنتاہے ۔
غیر معیاری تعلیم دینے کے علاوہ ملک کے تعلیمی اداروں میں دوسرا بڑا مسئلہ وہاں پرمستقل بنیادوں پر نفرت اور عداوت کے ماحول کاہے ۔ہر یونیورسٹی اور کالج میںنسلی، لسانی اورمذہبی بنیادوں پر طلبا آپ کوجنوں کی حدتک نسلی ، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم نظرآئینگے جو اکثر اوقات تصادم پرمنتج ہوتاہے ۔ جس طرح ماضی میں ہماری سرکار،ہماری مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اپنے مفادات اوراپنااپناسکہ جمانے کیلئے طلبا تنظیموں کی سرپرستی کیاکرتی تھی ، آج بھی ان تعلیمی اداروں میں معاملہ جوں کا توں دکھائی دیتاہے ۔
مذہبی طلباء تنظیموں کو کہیں لسانی طلباء کی تنظیموں سے لڑانا اور کہیں لسانیت اور قومیت کومذہب کے خلاف کھڑاکرنا ان جامعات میں ہمارے سیاست کا جزولاینفک بن چکاہے۔ تعلیمی اداروں میں تیسرابڑامسئلہ منشیات کا بے جااستعمال ہے جو اس وقت ایک فیشن بن چکاہے ۔اس کی بڑی مثال اس کے علاوہ اور کیاہوسکتی ہے کہ موجودہ حکومت کے وفاقی وزراء تک یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام آباد جیسے شہروں کے تعلیمی اداروں میں پچہتر فیصد طالبات اور پینتالیس فیصد طلبا منشیات کے عادی ہیں۔
تعلیمی اداروں میں چوتھا اور شرمناک مسئلہ جنسی ہراسانی،جنسی بے راہ روی اور فحاشی کاہے ۔طالبات اور طلبہ کی کمزوریوں کو پکڑو، انہیں بلیک میل کرو اور پھر انہیں اپنی ہوس کانشانہ بنالو۔جامعہ بلوچستان اس پسماندہ صوبے کا واحد بڑا تعلیمی ادارہ ہے جہاں غریب والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو دور درازعلاقوں سے اعلی تعلیم کیلئے بھجواتے ہیں لیکن تعلیم کے مقدس نام پر انہیں یاتومنشیات کا عادی بنایا جاتا ہے یا پھر ان کی عزتیں لی جاتی ہیں۔ پچھلے چند سال سے صوبے کے اس بڑے تعلیمی ادارے میں جو غیر اخلاقی سرگرمیاں شروع ہوئیں تھیں پچھلے دنوںاس کی قلعی کھل گئی ۔
پیرکو جامعہ بلوچستان میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ایک بڑا اسکینڈل بے نقاب ہوا کہ سیکورٹی کے نام پر جامعہ کاشعبہ سرویلنس کے اہلکار اور اساتذہ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز کو جنسی مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ایف آئی اے اس سکینڈل کی تحقیقات کررہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس شرمناک دھندے میں باقاعدہ طور پر پورا گینگ ملوث ہے جس کے ڈانڈے وائس چانسلر اور ان کی مخصوص ٹیم سے ملتے ہیں۔ وی سی کی ٹیم میں سیکورٹی سرویلنس آفیسروں سے لے کر ان کے پرسنل سیکرٹری اور جامعہ کے ڈاکٹر لیول کے پروفیسرز اور دیگر ملازمین شامل ہیں–
صوبائی چیف جسٹس بلوچستان جسٹس جمال مندوخیل نے کیس کا از خود نوٹس لیا اورایف آئی اے کو ستائیس اکتوبر تک رپورٹ پیش کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔یونیورسٹی کے مختلف شعبوں پر چھاپے مارنے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر طالبات کی ویڈیوز برآمد کی گئی ہیں۔ شرم اور ڈوب جانے کا مقام تو یہ ہے کہ طالبات ہاسٹل کے واش رومز میں سے خفیہ کیمرے برآمد ہوئے ہیں جو بجلی کے سرکٹس اور دوسری جگہوں پر نصب کیے گئے تھے۔دیکھا جائے تو ملک کی تاریخ میں تعلیمی ادارے میں سب سے بڑا اور شرمناک سکینڈل ہے۔
یونیورسٹی میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا یہ کام طویل عرصے سے وسیع پیمانے پر ہوتا رہا ہے۔ تعلیم اور باالخصو ص خواتین کی تعلیم کے حوالے سے یہ صوبہ پہلے سے ہی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پیچھے رہا ہے۔پشتون بلوچ قبائلی نظام میںبڑی مشکل سے والدین یہ جرات کرکے اپنی بچیوں کو یونیورسٹی بھیجتے ہیں،جس کا نتیجہ شرمناک اور انسانیت سوز سکینڈلز کی شکل میں سامنے آرہا ہے– جامعہ بلوچستان میںان غیر اخلاقی سرگرمیوں کا پہلا افسو س کن نتیجہ یہ نکلے گا کہ بہت سے والدین اپنی بچیوں کو باالکلیہ طور پر ناخواندہ رکھیں گے یا پھر بلوچستان یونیورسٹی جیسے جامعات میں اسے بھیجنے کا رسک لینے سے مکمل گریز کریں گے ۔
مذکورہ سکینڈل کا دوسرا نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ وہ والدین شرم کے مارے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے جن کی بچیاں اس سکینڈل کی زد میں آئے ہیں تاہم وہ لوگ بھی کنفیوزڈ رہیں گے جن کے پیارے اس سکینڈل کی وجہ سے مفت میں بدنام ہوئے ہیں۔سکینڈل کاتیسرا نقصان یہ ہواکہ پورے ملک میں پشتون اور بلوچ اقوام کی عزت نفس اور غیرت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیاہے ۔جنسی ہراسانی سکینڈلزکے علاوہ جامعہ بلوچستان میں دیگر بد انتظامیاں بھی پچھلے چندسالوں کے دوران عروج پر پہنچ چکی ہیں۔
یونیورسٹی میں ہونے والی تعیناتیاں بغیر میرٹ، سفارشات اور سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں۔اسی طرح داخلہ اور امتحانی فیسوں میں ناجائزاضافہ اورامتحانات کے دوران مختلف بدانتظامیاں طویل سے ہورہی ہیں جس کا نوٹس یونیورسٹی کے چانسلر گورنرصاحب اور نہ ہی کسی مقتدر جماعت نے لیاہوا۔چیف جسٹس جناب جمال مندوخکی طرف سے اس سکینڈل کا ازخود نوٹس لینااور اس کی تحقیقات کے احکامات جاری کرنا ایک خوش آئند امرہے۔ خداکرے کہ اس معاملے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے ورنہ خاکم بدہن سنجیدہ نہ لینے کی صورت میںیہ معاملہ کئی خرابیوں کا موجب بن سکتاہے۔
♦