سلمان حیدر
آپ کسی پاکستانی فوجی کو کچھ سمجھا یا پڑھا نہیں سکتے۔ سمجھنے یا پڑھنے کے لیے سب سے پہلی چیز جو ضروری ہے وہ یہ احساس ہے کہ ہمیں کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ کم ہے یا نہیں ہے ہمارے پاس جو ہونا چاہئیے۔
فوجی کا خیال ہوتا ہے کہ ہم ہر چیز جانتے ہیں ہر فن مولا ہیں اور عقل جتنی ہمارے پاس ہے اتنی کسی کے پاس نہیں۔ دلیل اس دعوے کی یہ ہوتی ہے کہ ہم صبح پانچ چھ بجے آٹھ جاتے ہیں، سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہاتے ہیں، سر کے بل تین گھنٹے کھڑے رہ سکتے ہیں اور ڈنر ٹیبل پر کانٹا بائیں ہاتھ رکھتے ہیں۔
ان دلیلوں کو دو وجہ سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایک وجہ یہ کہ وہ سچے ہیں یہ سب کر سکتے ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ یہ دلائل دلائل نہیں ہیں اور رد آپ صرف دلیل کو کر سکتے ہیں۔ وہم کو رد کرنے کا ذریعہ سوائے دماغی علاج کے دستیاب نہیں۔
مجھے مختلف مواقع اور کپیسیٹیز میں جتنے فوجی حضرات سے ملنے کا اتفاق ہوا ان سے حاصل کردہ تجربے کا کم سے کم اتنا فائدہ ہوا کہ میں ان کی قید سے زندہ نکل آیا۔ میرے ایک دوست نے ایک بار مجھ سے پوچھا کہ تو چاہتا کیا ہے اب بھی وہی الٹا سیدھا لکھتا رہتا ہے تجھے پتا ہے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آنا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں انہیں سمجھانے کے لیے نہیں لکھتا میں باقیوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ انہیں نہیں سمجھا سکتے۔
میرا ایک دوست فوجیوں کو گالیاں دینے اور ان کی ماں بہن ایک کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اسے میں نے ایک بار کہا کہ یار گالیاں نہ دیا کر اچھا نہیں لگتا یہ بھی تجھے گالیاں دیتے ہیں۔ اس نے کہا اچھا مجھے بھی نہیں لگتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یہی زبان سمجھ میں آتی ہے۔
فضل الرحمان کے دھرنے کے حوالے سے مجھے مکمل یقین ہے کہ اس میں مذہبی کارڈ استعمال ہو رہا ہے اور ختم نبوت توہین رسالت بھی نکلے گی اس دھرنے میں لیکن میں خاموش اس لیے ہوں کہ انہیں یہی زبان سمجھ میں آتی ہے۔ سنا ہے مولوی پی ڈی ایس (پین دی سری )نے بھی دس نومبر کو لاہور میں شو آف پاور کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو متوقع تھا۔
یہ ممکن نہیں کہ وہ یہ گیم سیدھی سیدھی دیوبندی گروپ کے ہاتھ جانے دے۔ سو امید ہے دونوں مولانا صاحبان اپنی اپنی زبان میں ایک دوسرے اور ایک دوسرے کے سر پرستوں کو سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان جیسی دلیلیں مولویوں کے پاس بھی ہیں۔
♦