عاطف توقیر
ساہیوال میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کی ویڈیو سامنے آئی تھی، تو ہر جانب شور مچا ہوا تھا اور حکومت سخت عوامی تنقید کی زد میں تھی۔اس سال جنوری میں سوشل میڈیا پر ہر جانب نظر آنے والی یہ ویڈیو ایک گاڑی سے بنائی گئی تھی، جس میں کچھ ہی فاصلے پر ایک کار کو چاروں طرف سے گھیرے سکیورٹی اہلکار ہوئے تھے۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ مارے جانے والے افراد کو دہشت گرد سمجھ کر گولیاں چلائی گئی تھی، مگر وہ نکلے غالباﹰ عام افراد۔
پھر ایک تصویر سوشل میڈیا پر دکھائی دی۔ اپنے ماں باپ کو اپنے سامنے گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھنے والے گم صم بچے، جن کے لباس پر ان کے والدین کے خون کے چھینٹے بھی واضح تھے اور چہرے پر خوف، بے بسی، حیرت اور سوالات بھی تھے۔ خوف اپنی زندگی اور مستقبل کا، بے بسی اپنے والدین کے اپنے سامنے لہو میں لت پت ہو کر جان دے دینے کی، حیرت اس واقعے کی وجوہات کی اور سوالات اس نظام سے۔
اس تصویر نے بھی سوشل میڈیا پر جیسے غوغا اٹھا دیا۔ حکومت پر تنقید ہونے لگی اور لوگ پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کے مطالبے کرنے لگے۔
اس وقت نئے پاکستان کے وعدے کے ساتھ تحریک انصاف کے ذریعے منصب وزارت عظمیٰ پر براجمان عمران خان قطر کے دورے پر تھے۔ ان کا اس موقع پر ٹوئٹ تھا، ”ساہیوال واقعے پر عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ بالکل جائز اور قابلِ فہم ہے۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ میں پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغاز کروں گا‘‘۔
تاہم کہتے ہیں کہ محبوب اور سیاست دان کے وعدے پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ زیادہ تر بیان سیاسی ہوتے ہیں۔ سو نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے اس مقدمے میں نام زد تمام ملزمان کو باعزت بری کرنے کا اعلان کر دیا۔
تحریک انصاف ہی کے ایک اور رہنما نے سابقہ حکومت کے دور میں اپنے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ جس مقتول کا قاتل نہ ملے، اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہے۔ تاہم یہ بیان بھی ظاہر ہے سیاسی تھا۔
سوشل میڈیا نے مذمت اور خبر کی سنجیدگی کی جہتیں تبدیل کر کے رکھ دیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی خبر وائرل ہو جائے، تو اچانک جیسے پورا معاشرہ جھنجھلا کر رہ جاتا ہے اور موضوع فقط وہی خبر ہوتی ہے۔پھر ایک اور معاملہ بھی ہے، کوئی سانحہ فقط اس وقت عوامی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، جب اس کی کوئی اچھی ویڈیو منظرعام پر آ جائے۔
اس وقت پاکستان میں بحث یہ ہو رہی ہے کہ ملک کا نظام انصاف کتنا کم زور ہے کہ وہ کسی سانحے میں ناحق مارے جانے والوں کو انصاف مہیا کرنے سے قاصر ہے۔عدالت میں ہوا یہ کہ گواہان نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور یوں عدالت نے ملزمان کو ‘شک کا فائدہ‘ دے کر بری کر دیا۔ پہلے ملزمان کو پہچاننے اور اب اچانک یہ پہچان غائب ہو جانے کی وجوہات کیا تھیں، یہ ظاہر ہے نہایت واضح بھی ہے اور مبہم بھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں عدلیہ کا نظام کم زور ہے؟ یقیناﹰ پاکستانی عدلیہ اور انصاف کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن زیادہ اہم معاملہ یہ ہے کہ عدالت فقط اپنے سامنے موجود ثبوتوں، دلائل، گواہوں اور شواہد ہی کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔ عدلیہ کم زور ہو نہ ہو مگر اس نظام کی کم زوری اور اس کے مختلف طرز کے مفادات سے تانے بانے نہایت واضح ہیں۔
ایک طرف یہ نظام اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے دیتا ہے مگر دوسری طرف راؤ انوار سے متعلق بالکل بے بس نظر آتا ہے۔ ایک طرف اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ تین بار وزیراعظم کا منصب اپنے پاس رکھنے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات پر جیل سے باہر نہیں آنے دیتا، مگر دوسری طرف آرٹیکل چھ کے تحت غداری سمیت قتل اور دیگر سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والے پرویز مشرف نہایت آسانی سے ملک چھوڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ سابق وزیر قانون برائے پنجاب اور موجودہ رکن پارلیمان رانا ثنا اللہ پر منشیات کی سمگلنگ کے الزامات میں دھر لیتا ہے اور ضمانت نہیں ہو سکتی، وزیرستان سے منتخب ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں محسن داوڑ اور علی وزیر کو حراست میں لیا جاتا ہے اور وہ تین ماہ تک انتہائی سکیورٹی والی جیل میں دنیا سے الگ تھلگ کر کے دکھ دیے جاتے ہیں، مگر دوسری طرف اتنا کم زور ہو جاتا ہے کہ احسان اللہ احسان اور دیگر انتہائی سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔
اب مجموعی معاملہ یہ ہے کہ ساہیوال میں ایک کار کو سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے گھیر کو فائرنگ کی اور ایک خاتون سمیت تین افراد موقع پر قتل کر دیے گئے، گواہان نے ملزمان کی شناخت سے انکار کر دیا اور ملزمان بری ہو گئے۔ یعنی ایک واقعہ ہوا ہے، ایک سانحہ پیش آیا ہے، تین افراد قتل ہوئے ہیں اور قاتل نہیں مل رہا ہے۔
DW بشکریہ