بنگلہ دیش میں سزا جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے ملزم بری

بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے نصرت جہاں رفیع نامی لڑکی کو تیل چھڑک کر زندہ جلا دینے کے الزام میں 16 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے۔انیس سالہ نصرت کا تعلق ڈھاکہ سے 160 کلومیٹر دور جنوب میں واقع ایک چھوٹے قصبے فینی سے تھا۔

نصرت جہاں ایک مدرسے میں پڑھتی تھیں اور انھوں نے اپنے استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ انھوں نے الزام لگایا تھا کہ 27 مارچ کو مدرسے کے ہیڈ ماسٹر نے انھیں اپنے دفتر میں بلایا اور متعدد بار غیر مناسب طریقے سے چھونے کی کوشش کی۔ان کے مطابق اس سے پہلے کہ ’بات آگے بڑھتی‘ وہ ان کے دفتر سے بھاگ آئی تھیں۔

جنسی ہراس کی شکایت کرنے کے پانچ دن بعد ہی نصرت جہاں کو زندہ جلائے جانے کے واقعے اور اس کے رد عمل نے بنگلہ دیش کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس مقدمے کی سماعت بہت تیزی سے مکمل ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں عموماً ایسے معاملات کا نتیجہ نکلنے میں کئی سال گزر جاتے ہیں۔

نصرت جہاں کی موت کی تحقیقات سے انھیں خاموش کرنے کی سازش کا انکشاف ہوا جس میں ان کی اپنی کلاس اور برادری کے متعدد طاقتور افراد شامل تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ہراس کرنے کے الزام میں گرفتاری کے بعد ہیڈ ماسٹر سراج الدولہ نے جیل ہی سے قتل کا حکم دیا۔ ان سمیت تین اساتذہ کو جمعرات کو عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔ دو ملزمان روح الامین اور مقصود عالم بھی بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ پارٹی کے مقامی رہنما ہیں۔اس کیس میں متعدد مقامی پولیس افسران نے مجرمان کے ساتھ تعاون کیا اور غلط معلومات پھیلائیں کہ نصرت جہاں نے خود کشی کی تھی۔

بنگلہ دیش کے مقامی میڈیا کے مطابق نصرت جہاں کے اہل خانہ کو پولیس تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ان کے اہلِ خانہ نے مارچ میں ان کے پولیس کے پاس جانے کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔

ستائیس مارچ کو نصرت کے پولیس کے پاس جانے کے بعد ہیڈ ماسٹر کو گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے بعد نصرت کے لیے حالات خراب ہوئے تھے۔چند افراد کے ایک گروہ نے سڑکوں پر ہیڈ ماسٹر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس احتجاج کا انتظام مدرسے کے دو مرد طلبا نے کیا تھا اور اس میں مبینہ طور پر مقامی سیاستدان بھی شامل ہوئے تھے۔

اس کے باوجود چھ اپریل کو اس مبینہ جنسی حملے کے 11 روز بعد نصرت اپنے سالانہ امتحان میں بیٹھنے کے لیے اپنے مدرسے گئی تھیں۔

نصرت جہاں کے بیان کے مطابق ان کی ایک سہیلی انھیں مدرسے کی چھت پر یہ کہہ کر لے گئی تھیں کہ وہاں ان کی ایک دوست کو پیٹا جا رہا ہے۔

نصرت جب وہاں پہنچیں تو وہاں چار سے پانچ برقعہ پوش افراد موجود تھے جنھوں نے انھیں گھیر لیا اور ان پر مبینہ طور پر ہیڈماسٹر کے خلاف مقدمہ واپس لینے پر زور ڈالا۔ جب انھوں نے انکار کیا تو انھیں آگ لگا دی گئی۔

پولیس کے مطابق قاتل اس واقعے کو خود کشی ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ ان کا منصوبہ تب ناکام ہوا جب نصرت کو ان کے جائے وقوعہ سے بھاگ جانے کے بعد بچا لیا گیا اور وہ مرنے سے پہلے اپنا بیان ریکارڈ کروانے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔

جب نصرت کو مقامی ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے ان کے جسم کا 80 فیصد حصہ جھلسہ پایا، اور ان کے زخموں کا علاج نہ کر پانے کی وجہ سے انھیں ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال بھیجا گیا۔ایمبولینس میں زندہ نہ بچنے کے خوف سے نصرت نے اپنے بھائی کے موبائل پر اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔

اس بیان میں آپ انھیں یہ کہتے ہوئے سن سکتے ہیں ’میرے استاد نے مجھے چھوا، میں اپنی آخری سانس تک اس جرم سے لڑائی لڑوں گی‘۔اس واقعے میں نصرت کا 80 فیصد جسم جھلس گیا تھا اور وہ چار دن کے بعد 10 اپریل کو ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

بنگلہ دیش میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات عام ہیں۔ اس سال کے اوائل میں چیریٹی ایکشن ایڈ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بنگلہ دیش کی لباس کی صنعت میں کام کرنے والی 80 فیصد خواتین نے یا تو کام پر جنسی تشدد دیکھا ہے یا اس سے گزری ہیں۔

تاہم نصرت جہاں کی طرح اس موضوع پر بات کرنا ابھی تک عام نہیں ہے۔ ان جیسی لڑکی کے لیے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر بات کرنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ متاثرہ افراد کو اکثر اپنی برادری کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ذاتی حیثیت یا آن لائن پر ہراساں کیا جاتا ہے اور بعض واقعات میں ان کو پر تشدد حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نصرت جہاں کا کیس خاص طور پر غیر معمولی اس لیے تھا کہ وہ پولیس کے پاس گئیں۔ پولیس نے موبائل پر ان کے بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ کی اور بعد میں میڈیا کو لیک کر دی۔۔

نصرت کی موت کے نتیجے میں ملک میں مظاہرے ہوئے اور ہزاروں افراد نے سوشل میڈیا پر ان کی موت اور بنگلہ دیش میں جنسی حملوں کا شکار ہونے والے کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر اپنا غم و غصہ نکالا۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ڈھاکہ میں نصرت کے گھر والوں سے ملاقات کی اور وعدہ کیا کہ ان کے قتل میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کوئی بھی مجرم قانون سے بچ نہیں پائے گا‘۔

بنگلہ دیش مہیلہ پریشدنامی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق سنہ 2018 میں ریپ کے 940 واقعات ہوئے مگر محققین کا کہنا ہے کہ ان کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔

BBC

Comments are closed.