ظفر آغا
اللہ رے ہندوستانی مسلم قیادت! سنہ 1980 کی دہائی سے اب تک اس ملک کی سیاست کا محور رہی بابری مسجد کے تعلق سے سنی وقف بورڈ کے ایک شخص نے راتوں رات یہ فیصلہ کر لیا کہ وقف بورڈ مسجد کی اراضی سے دستبردار ہوتی ہے۔
جی ہاں، آپ بخوبی واقف ہیں کہ پچھلے ہفتے اتر پردیش وقف بورڈ کے صدر جناب ظفر احمد فاروقی صاحب نے بابری مسجد–رام مندر تنازع کے تعلق سے چل رہے مقدمے کی سنوائی کے آخری روز سپریم کورٹ میں کیا تماشہ کیا۔ ان کے وکیل نے عدالت میں یہ بیان داخل کر دیا کہ بورڈ ایودھیا اراضی سے دست بردار ہوتی ہے۔
جناب آپ کون اور آپ کو یہ حق دیا کس نے! آپ معمولی سے ایک وقف بورڈ کے چیئرمین ہیں لیکن آپ فیصلہ لے رہے ہیں، اس معاملے میں جس سلسلے میں ہزاروں مسلمانوں کی اب تک جان جا چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ نے مسلم مفاد میں نہیں ذاتی مفاد میں یہ فیصلہ لیا۔
بس یہی تو مسئلہ ہے مسلم قیادت کا وہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلم مفاد میں نہیں بلکہ محض ذاتی مفاد میں سرگرم رہی ہے۔ اس ملک میں کون ہے جو اس حقیقت سے بخوبی واقف نہیں کہ مسلم وقف بورڈ کے کیا حالات ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وقف بورڈ ایک عرصے سے ’پراپرٹی ڈیلنگ‘ کے اڈے بن چکے ہیں اور اس کے ممبران دراصل اب پراپرٹی ڈیلر ہو چکے ہیں۔
آزادی کے بعد سے اب تک سارے ہندوستان میں مسلم وقف بورڈ کے ممبران نے ہزاروں کروڑ کے مسلم اوقاف کوڑیوں میں بیچ ڈالے۔ ایسے میں بھلا فاروقی صاحب سے کوئی کیا امید رکھ سکتا ہے! حضرت جب مایاوتی اقتدار میں تھیں تو اس وقت سے اب تک یو پی وقف بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ حکومتیں آئیں اور گئیں۔ لیکن جناب فاروقی صاحب کا بال بیکا نہیں ہوا۔ ظاہر ہے کہ محترم ابن الوقت ہیں اور ہر پارٹی کے حاکموں کی چاپلوسی کر اپنی کرسی برقرار رکھتے ہیں۔
اب بھلا ان کو مسلم مفاد کی کیا فکر ہو سکتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ یو پی حکومت نے دو تین معاملات میں فاروقی کے خلاف سی بی آئی انکوائری کی سفارش کر دی ہے۔ بس اس کے بعد فاروقی کی روح فنا ہو گئی اور کورٹ میں عرضی لگا دی کہ بابری مسجد اراضی سے بورڈ دستبردار۔
لیکن ایک فاروقی کا کیا رونا روئیے! ایک دور تھا کہ اس ملک کا مسلمان بابری مسجد ایکشن کمیٹی پر جان چھڑکتا تھا۔ بابری مسجد تحفظ کے لیے قائم کی گئی اس کمیٹی کا واحد مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی جان دے دیں گے۔ قوم کو نچھار کر دیں گے لیکن بابری مسجد کا بال بیکا نہیں ہونے دیں گے۔ نعرۂ تکبیر کی صداؤں کے ساتھ اس کمیٹی کی ایک آواز پر ہزاروں مسلمان اکٹھا ہوتے تھے۔ اس یقین کے ساتھ کہ جب تک بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ممبران ہیں تب تک مسجد کو آنچ نہیں آ سکتی۔
آخر ہوا کیا! 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد گرا دی گئی۔ ہزاروں مسلمان ہندوؤں کے غیض و غضب کا شکار ہو گیا۔ بابری مسجد تو گئی، مسلمان بھی مارے گئے۔ لیکن بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کسی ایک ممبر کا بال نہیں بیکا ہوا۔ بابری مسجد تحفظ کے لیے جان چھڑکنے والی کمیٹی کا ایک فرد بھی ایودھیا تک نہیں پہنچا۔
راقم الحروف ہی نہیں بلکہ سینکڑوں افراد بخوبی واقف ہیں کہ جب بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنی تھی اس وقت اس کمیٹی کے ممبران چار پیسے کی حیثیت کے بھی مالک نہیں تھے۔ اب اس کمیٹی سے منسلک ہر فرد سینکڑوں کروڑ کا مالک ہے۔ مسجد تحفظ کے نام پر کروڑہا چندہ جو جمع ہوا اس کا حساب کسی نے اب تک نہیں دیا۔ مسجد کے تعلق سے سینکڑوں افراد جو مرے اور ان کے گھر بار تباہ ہو ئے ان میں سے ایک کو بھی کمیٹی نے کوئی راحت نہ دی۔ خود کوئی وزیر بن گیا تو کسی کی پارٹی چمک گئی، کسی کی وکالت میں چار چاند لگ گئے تو کوئی قائد ملت بن کر گھوم رہا ہے ۔ارے صاحب اگر کسی کو ملت کے مفاد کی فکر ہوتی تو بھلا ایسی جذباتی باتیں کیوں ہوتیں جس نے بی جے پی کو ہندو راشٹر تک پہنچا دیا۔
ایسے ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ کا عالم ہے۔ تین طلاق کے نام پر پرسنل لاء بورڈ نے برسوں تحریک چلائی۔ پوری قوم شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے قوم کا حق تین طلاق بچانے میں لگ گئی۔ پہلے تو کسی کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ طلاق ثلاثہ کا حق قرآن نے نہیں دیا ہے۔ جب یہ بات کھلی تو پرنسل لاء بورڈ نے بھی اعلان کر دیا کہ طلاق ثلاثہ ’طلاق بدعت‘ ہے جس کو ختم کرنے کے لیے بورڈ ملت میں ’اصلاح ملت تحریک‘ چلائے گی۔
جب طلاق ثلاثہ قرآن کی رو سے جائز نہیں اور بورڈ خود اس کو طلاق بدعت مانتا ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے تحریک چلا رہی ہے تو پھر اس کو بچانے کے لیے سپریم کورٹ تک کی دوڑ کیوں! اس کے نام پر چندہ کیوں جمع ہو رہا ہے۔ قوم کی بڑی بڑی ریلیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ نتیجہ کیا ہوا! مسلمان ساری دنیا میں بدنام ہوا کہ یہ تو اپنی بیویوں کو منٹوں میں بلاوجہ طلاق دیتے ہیں۔ بی جے پی نے ہندوؤں کو اکٹھا کر کے ہندو ووٹ بینک مستحکم کر لیا۔ بورڈ کے تمام ممبران اور لیڈران قائد بن کر مزے کرتے رہے جب کہ قوم جہنم میں گئی اور آخر طلاق ثلاثہ بھی ختم ہوئی۔
ایسے ہی آزادی سے قبل سے اب تک اس ملک کا مسلمان جمعیۃ علماء ہند پر جان چھڑکتا تھا اور تھی بھی کمال کی یہ تنظیم۔ جمعیۃ نے انگریزوں کے خلاف صف اول میں رہ کر جدوجہد کی۔ گاندھی جی جیسا قائد جمعیۃ کا مرید تھا۔ جناح اور بٹوارے کے خلاف جمعیۃ نے تحریک چلائی۔ آخر کیا نوبت آئی! پہلے تو جمعیۃ دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور ایک خاندان کی میراث ہو گئی۔
ابھی حال ہی میں خبر آئی کہ جمعیۃ کے ایک صدر دہلی میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے دربار میں حاضری دے آئے اور ان کے ساتھ مل کر سارے ہندوستان میں ہندو۔مسلم ایکتا کے لیے مل کر کام کرنے کو راضی ہیں۔ جب کہ بھاگوت نے اس ملاقات کے چار روز بعد یہ اعلان کیا کہ ہندوستان ہندو راشٹر تھا اور ہندو راشٹر رہے گا۔
دوسری جانب جمعیۃ کے دوسرے قائد سَنگھ کے ساتھ مفاہمت کے آئے دن بیان دیتے ہیں۔ ان کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سنگھ جس ہندو راشٹر کی بات کرتی ہے اس میں مسلمان محض دوسرے درجے کا شہری ہی ہو سکتا ہے۔ کیا جمعیۃ والوں کو ہندو راشٹر کا مسلمانوں کے لیے کیا مطلب ہے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ ان کی سمجھ میں خوب آتا ہے، لیکن یہ مزے کریں۔ ساری دنیا سے چندہ جمع کریں۔ کروڑہا روپیوں کی کاروں میں گھومیں اور ہوائی جہاز سے دنیا بھر میں سفر کریں۔ اور جب ملک کو ہندو راشٹر بنایا جائے تو موہن بھاگوت سے ہاتھ ملا لیں۔ یہ حال ہے جمعیۃ کا!۔
اسی طرح ایک جماعت ہے آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین۔ وہ پہلے محض حیدر آباد میں چناؤ لڑتی تھی۔ اب سارے ہندوستان میں مختلف صوبوں میں جہاں جہاں مسلم آبادی کافی ہے وہاں وہاں چناؤ میں اپنے نمائندہ کھڑی کرتی ہے۔ ابھی مہاراشٹر میں مجلس نے چوالیس سیٹوں پر اپنے نمائندے کھڑے کیے ہیں۔ پچھلی بار اسی مجلس نے مہاراشٹر اسمبلی میں 24 سیٹوں پر اپنے نمائندے کھڑے کیے تھے اور ان میں سے 13 سیٹوں پر اس کو 10 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے جب کہ 27 میں سے 12 سیٹیں ایسی تھیں جن پر مجلس کے نمائندوں کو جیت کے مارجن سے کچھ زیادہ ووٹ ملے تھے اور ان میں سے آٹھ سیٹوں پر شیو سینا اور بی جے پی کامیاب ہوئی تھی۔
یعنی مجلس کی وجہ سے بی جے پی اور شیو سینا آٹھ سیٹوں پر چناؤ جیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ جن 44 سیٹوں پر مجلس مہاراشٹر میں اس بار چناؤ لڑ رہی ہے ان پر بھی زیادہ تر سیٹوں پر مسلم ووٹ بٹ جائے گا جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی اور شیو سینا کو ہوگا۔ یہ ہے مجلس اتحادالمسلمین کی سیاست۔
جناب وہ وقف بورڈ ہو یا جمعیۃ یا پرسنل لاء بورڈ یا پھر مجلس، کسی بھی مسلم تنظیم سے ہندوستانی مسلمان کو فائدہ نہیں ہوا۔ ہاں ان تنظیموں سے منسلک افراد ضرور پھلے پھولے جب کہ مسلمان خسارے میں رہا۔ دوسری جناب اس کا فائدہ اگر کسی کو ہوا تو وہ بی جے پی تھی جس نے ان تنظیموں کی چلائی گئی تحریکوں اور سیاست کے رد عمل میں ہندو ووٹ بینک بنا کر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا لیا۔ اب فیصلہ ہندوستانی مسلمان کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ ایسی جماعتوں کو اپنا قائد تسلیم کرے یا پھر ان سےنجات حاصل کرے۔
ڈیلی قومی آواز، نیو دہلی