محمد حسین ہنرمل
مجھے آج کل پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے رویے اور اس حکومت کی ڈانوا ڈول پالیسیوں پر غلام ہمدانی مصحفی کا ایک مشہور شعر یاد آتا ہے– گوکہ یہ جماعت اب مرحوم مصحفی کے دل کی طرح جگہ جگہ رفُو کا تقاضا کر رہی ہے،۔
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفُو کا نکلا
مصحفی کے علاوہ تحریک انصاف کی کارگردگی کو دیکھ کر مجھے مرحومہ پروین شاکر کا ایک شعر بھی یاد آرہا ہے،۔
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
پی ٹی آئی اقتدار میں آئے لگ بھگ چودہ مہینے بیت گئے لیکن حال یہ ہے کہ عوام اس جماعت کی قیادت اور نہ ہی حکومت سے مطمئن نظر آتی ہے ۔ لوگ سمجھتے تھے کہ حکومت میں آکر پی ٹی آئی کی حکومت صرف معاشی بحرانوں کا سامنا کرے گی لیکن اب یہ بات ہر کسی پر عیاں ہوگئی کہ یہ جماعت شدید اخلاقی بحرانوں سے بھی دوچار ہے ۔ پہلے لوگوں کا خیال تھا کہ زخم صرف ایک ہی ہے جو رفتہ رفتہ بھر جائے گا لیکن اب پوری قوم کو عین الیقین ہوگیا ہے کہ زخم بھرنے کے بجائے الٹا ناسور بنتا جارہا ہے۔
ذاتی طور پر میں خود سمجھتا ہوں کہ اس ملک کے آدھے لوگ اب بھی عمران خان حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اس کے دور حکومت میں بے قابو مہنگائی پر اتنے برہم نہیں ہونگے جتنا کہ اس جماعت کی قیادت اور وزرا ء کے ہتک آمیز رویے پر برہم ہیں ۔تقریبا ہر دوسرا تیسرا پاکستانی اب بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ ملک کی معیشت کا بیڑہ ویسے بھی پہلے سے غرق تھا اب اگر مہنگائی بڑھائی گئی تو یہ حکومت کی مجبوری بھی ہے۔
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور وزراء صاحبان کا روز اخلاقیات سے عاری بیانات جاری کرنا، ہتک آمیز رویہ اور وباشانہ طرزِ سیاست بھی ایک مجبوری ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو اس وقت ہر پاکستانی کے ذہن میں گردش کررہا ہے ۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تب بھی یہ اپنی ہر تقریر میں مخالفین پر سب وشتم کے تیر چلا رہے تھے۔ ڈی چوک میں ایک سو چھبیس دن کے دھرنے سے شاید خلق خدا اتنی دق نہیں ہوئی ہوگی جتنا کہ انہوں نے اپنی زبان ِبے لگام سے لوگوں کو مایوس کیا ۔
چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ وہ زمانہ ان کے اختلاف اور ناز و ادا کا زمانہ تھا لیکن حکومت میں آکر بھی انہوں نے انتقامی رویے اور زبانی جنگ کو موقوف نہیں کیا۔ امریکہ گئے تب بھی ان کے حواس پر اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل میں مقید مخالفین سوار تھے اور وہاں سے دھمکیاں بھیج رہے تھے کہ وطن واپس جاکر جیل میں نواز شریف کے کمرے سے ٹی وی اور اے سی بھی نکالوں گا۔ آصف زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ‘ آصف زرداری آپ کو بھی اسی جیل میں رکھیں گے جہاں ٹی وی ہوگا اور نہ اے سی ”۔
اوہ نیازی صاحب! دیار ِغیر کے محاذ پر ایک لیڈر پلس وزیراعظم کو بھارت جیسے حریفوں اورایف اے ٹی ایف کے چنگل سے آزادی کی جنگ لڑنی چاہیے نہ کہ جیل میں پڑے بیمار نواز شریف اور آصف علی زرداری سے۔مولانا فضل الرحمن کے متوقع آزادی مارچ کے حوالے سے گزشتہ دنوں وزیراعظم خان کی ایک تقریر سن کر مجھے ان کی عقل پر مزید افسوس آیا۔ عجیب کمال کرتے ہیں، ایک طرف مولانا کی آزادی مارچ سے نجات حاصل کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے کر منتیں کر رہا ہے اور دوسری طرف اسی مولانا کو دقیانوسی زمانے کے ڈیزل اور پٹرول کے طعنے بھی دیتے رہتے ہیں، یاللعجب ۔
پہلے آسمان سر پر اٹھایا اور اپنے وزراء سے مارچ میں شرکت کرنے والوں کو دھمکیاں دلوا دیں, اٹک پر کنٹینرز پہنچائے اور اسلام آباد کے داخلی راستوں کو بند کرنا شروع کیا لیکن چند دن بعد اعلان کیا کہ” مولانا صاحب کو مارچ کی اجازت ہے مگر وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ نہیں دوں گا”۔
اسی طرح امور حکومت چلانے کیلئے جس ٹیم کا انہوں نے انتخاب کیا وہ بھی ہر حوالے سے قابل رحم ہے۔سوائے اسد قیصر، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسوں کے باقی سب اہلیت کے ساتھ ساتھ حسن خلق سے بھی تہی دست ثابت ہوئے ہیں۔ بے حسی کی انتہا دیکھ لیجیے کہ نواز شریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے قریب المرگ ہوگئے ہیں ۔ خون میں پلیٹ لیٹس کی سطح لاکھوں سے گر کرچھ سات ہزار تک پہنچ گئی لیکن معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان صاحبہ بر سر بازار جملے کس رہی ہیں کہ میاں صاحب کا خون مرغن غذائیں اور نہاری کھانے کی وجہ سے پتلا ہوگیا ہے۔ زلزلہ آتا ہے تو اعوان صاحبہ بول اٹھتی ہیں کہ یہ اصل میں زمین بھی پی ٹی آئی حکومت کی تبدیلی کا بوجھ اٹھانے سے عاجز آکر لرز اٹھی ۔
فیصل واوڈا ہو یا فواد چودھری اور علی امین گنڈاپور ، وزیراعلیٰ محمودخان ہو ،علی محمد خان ہو یا مراد سعید اور زرتاج گل صاحبہ وغیرہ ہر ایک نے بہت مختصر عرصے میں گفتار کے بڑے عجیب وغریب پھول کھلائے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اگر حقیقی معنوں میں ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ان کی خدمت میں رحمان بابا کا یہ شعر پیش کرنا چاہتاہوں
دلتہ دم او قدم دواڑہ پہ حساب دی
پل غلط لہ لارے مہ ژدہ بے حسابہ
ترجمہ: یہاں سانس اور قدم دونوں حساب سے ملتے ہیں ، سو چلتے وقت پھونک پھونک کر چلیے
♦