کراچی میں سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی اہلکاروں نے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے موضوع پر آرٹسٹ عدیلہ سلیمان کی فنی نمائش کو زبردستی بند کرا دیا۔
کراچی کے تاریخی فریئر ہال میں یہ ملٹی میڈیا نمائش ‘کراچی ِبنالے‘ کا حصہ تھی۔ اس کا افتتاح ہفتہ کو ہوا تھا اور اتوار سے اسے لوگوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ ‘کلنگ فیلڈز آف کراچی‘ کے عنوان سے اس نمائش میں تصاویر اور ایک فلم کی سکرینگ کے علاوہ قطاروں کی صورت میں قبروں کے علامتی کتبے رکھے گئے ہیں۔
اس نمائش میں نقیب اللہ محسود قتل کیس کے حوالے سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں انسانی جذبات کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اس قتل کا الزام اُس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر تھا۔
راؤ انوار کراچی میں پولیس مقابلوں میں ملزمان کو ہلاک کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے، جس کا برملا اقرار وہ اپنے کئی میڈیا انٹرویوز میں خود کر چکے تھے۔ ریٹائرڈ ایس پی راؤ انوار آج بھی پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے قریب تصور کیے جاتے ہیں۔
عدیلہ سلیمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اتوار کے روز سادہ کپڑوں میں دو لوگ فریئر ہال آئے اور منتظمین کو حکم دیا کہ نمائش کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ ان افراد کو بتایا گیا کہ اس نمائش کے لیے مقامی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت لی گئی ہے، لیکن انہوں نے نمائش والا کمرہ بند کروا کر اسے تالا لگوا دیا اور کہا کہ اس نمائش سے متعلق باہر رکھے گئے فن پارے بھی اٹھوا لیے جائیں گے‘‘۔ چونکہ ان افراد کا تعلق پاکستان کی کسی انٹیلیجنس ایجنسی سے تھا جس کے باعث منتظمین کوئی مزاحمت نہ کر سکے۔
سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے سرکاری اہلکاروں کی طرف سے یونیورسٹیوں اور میڈیا ہاؤسز کے بعد اب آرٹسٹوں پر غیرقانونی پابندیاں لگانے کی مذمت کی ہے۔
عدیلہ سلیمان کے مطابق اس قسم کے ہتھکنڈے ظاہر کرتے ہیں کہ آرٹ کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے جو ہمیشہ بعض قوتوں کو ناگوار گزرتی ہے۔
عدیلہ کے مطابق ان کی نمائش کوئی صحافتی کام نہیں تھا بلکہ بطور آرٹسٹ وہ ایسے واقعات کا درد محسوس کرنا اور کرانا چاہتی ہے تاکہ ماورائے قانون قتل کی روش بند کی جائے۔
DW