کویت کی گلیوں میں جب آپ گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں تو آپ کو خواتین نظر نہیں آتیں۔وہ بند دروازوں کے پیچھے رہتی ہیں۔ بنیادی حقوق سے محروم، کہیں جا نہیں سکتیں ہیں اور اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ انھیں سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو بیچ دیا جائے گا۔ آپ ایک سمارٹ فون پکڑیں اور ان کی ہزاروں تصاویر دیکھیں، جن کو نسلی طور پر تقسیم کیا گیا ہے اور چند ہزار ڈالر کے عوض ان کو خریدا جا سکتا ہے۔
بی بی سی عربی کی ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ کویت میں گوگل پلے اور ایپل سٹور کی طرف سے ہوسٹ کی گئی ایپس کی مدد سے گھریلو ملازمین کی بلیک مارکیٹ میں غیر قانونی آن لائن تجارت کی جا رہی ہے۔
غلامی کے آج کے دور کے طریقوں پر اقوامِ متحدہ کی معاونِ خصوصی ارمیلا بھلہ کہتی ہیں کہ ’غلاموں کی آن لائن مارکیٹ میں تشہیر ہو رہی ہے۔’اگر گوگل، ایپل، فیس بک یا کوئی دوسری کمپنی اس طرح کی ایپس کو ہوسٹ کر رہی ہے تو انھیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔۔دس میں سے نو کویتی گھروں میں گھریلو ملازم رکھے جاتے ہیں۔ یہ ملازمین دنیا کے غریب ترین حصوں سے خلیجی ممالک آتے ہیں تاکہ اتنے پیسے کما سکیں کہ کم از کم اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔
بی بی سی عربی کی ٹیم نے کویت کا ایک نووارد جوڑا بن کر 57 ایپ صارفین سے بات کی اور ایک درجن سے زیادہ ایسے لوگوں سے ملاقات کی جو ایک مشہور ایپ ’4 سیل‘ یا فور سیل کے ذریعے گھریلو ملازمین کو بیچنے کی کوشش کر رہے تھے۔سبھی فروخت کرنے والوں نے مشورہ دیا کہ عورتوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے جائیں اور ان کی فون تک رسائی یا تو محدود کر دی جائے یا بالکل بند کر دی جائے۔
فور سیل ایپ آپ کو مختلف قیمتوں کے حوالے سے گھریلو ملازمین کی نسل فلٹر کر کے دیتی ہے۔
ایپ کے صارفین نے، جو کہ اپنے آپ کو ان عورتوں کے ’مالک‘ بتاتے تھے، ٹیم سے کہا کہ وہ ان عورتوں کے بنیادی حقوق سلب کریں جیسا کہ انھیں ایک دن، منٹ یا سیکنڈ کے لیے بھی چھٹی نا دیں۔ایک شخص نے، جو کہ پولیس والا تھا اور اپنی ملازمہ سے جان چھڑانا چاہتا تھا، کہا کہ ’میرا یقین کرو یہ بہت اچھی ہے، وہ ہنستی ہے اور اس کا مسکراتا ہوا چہرہ ہے۔ اگر آپ اسے صبح پانچ بجے تک بھی جگائے رکھیں گے تو وہ شکایت نہیں کرے گی۔‘
انھوں نے بی بی سی کی ٹیم کو بتایا کہ کس طرح گھریلو ملازمین کو جنس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ’آپ دیکھیں گے کہ کوئی دو ہزار ڈالر کی ملازمہ خرید رہا ہے اور اسے تین ہزار میں بیچ رہا ہے۔انھوں نے خریدنے والوں کو ایک مشورہ بھی دیا۔ ’اسے پاسپورٹ کبھی نہ دیں۔ آپ اس کے سپانسر ہیں۔ آپ اسے پاسپورٹ کیوں دیں گے۔‘
ایک اور چونکا دینے والے کیس میں بی بی سی کی ٹیم کو ایک 18 سالہ لڑکی پیش کی گئی جس کا فرضی نام ’فاتو‘ ہے۔اسے مغربی افریقہ کے ملک گنی سے غیر قانونی طور پر لایا گیا تھا اور وہ چھ ماہ سے کویت میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ کویت میں قانون کے مطابق گھریلو ملازمہ کی عمر کم از کم 21 سال ہونی چاہیے۔
ان کو فروخت کرنے والے ان کی خوبی یہ بتاتے تھے کہ انھیں کوئی چھٹی نہیں دی گئی۔ ان کا پاسپورٹ اور فون لے لیا گیا ہے اور انھیں اکیلے گھر سے باہر جانے پر پابندی ہے۔ اور یہ سبھی باتیں کویت میں غیر قانونی ہیں۔
ارمیلا بھلہ کہتی ہیں کہ یہ ’ماڈرن غلامی کی ایک واضح مثال ہے۔’یہاں ایک بچی مال و متاع کی طرح بیچی جا رہی ہے، جیسے پراپرٹی کا ٹکڑا ہو۔‘
خلیج میں اکثر جگہوں پر ایجنسیاں گھریلو ملازموں کو ملک میں لاتی ہیں اور پھر انھیں حکومت کے ساتھ رجسٹر کیا جاتا ہے۔ممکنہ مالک ایجنسیوں کو ایک فیس دیتے ہیں اور پھر گھریلو ملازم کے باقاعدہ سرکاری طور پر سپانسر بن جاتے ہیں۔
اس نظام کو کفالا کا نظام کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت گھریلو ملازمہ اپنے سپانسر کی اجازت کے بغیر نہ نوکری بدل یا چھوڑ سکتی ہے اور نہ ہی ملک چھوڑ کر جا سکتی ہے۔
سنہ 2015 میں کویت میں گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے ایک قانون بنایا گیا تھا۔ لیکن یہ قانون بہت سوں کو پسند نہیں آیا۔ فور سیل جیسی ایپس کے ذریعے مالکان گھریلو ملازمین کی سپانسرشپ کسی اور کو منافعے پر بیچ دیتے ہیں۔
اس سے ایجنسیاں بائی پاس ہوتی ہیں اور ایک غیر منظم کالا بازار پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین زیادہ غیر محفوظ ہو جاتی ہیں اور ان کے ساتھ زیادتی اور استحصال بڑھ سکتا ہے۔
یہ آن لائن غلاموں کا بازار صرف کویت ہی میں نہیں ہے۔ سعودی عرب میں بھی ایک مشہور اجناس کی ایپ ’حراج‘ پر سینکڑوں خواتین کو بیچا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں انسٹاگرام پر بھی ہیں جس کی ملکیت فیس بک کے پاس ہے۔
بی بی سی کی ٹیم نے گنی کا دورہ کیا تاکہ فاتو کے گھر والوں سے رابطہ کیا جا سکے۔یہاں سے ہر سال سینکڑوں خواتین بطور گھریلو ملازمین خلیج میں سمگل کی جاتی ہیں۔ایک سابق ملازمہ نے کہا کہ کویت حقیقی طور پر دوزخ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح ان کی مالکہ انھیں بھینسوں کے باڑے میں سلاتی تھیں۔ایک اور نے کہا کہ ’کویتی گھر بہت برے ہوتے ہیں۔ سونا نہ کھانا، کچھ بھی نہیں۔‘
کویتی حکام کو فاتو کا پتہ چلا اور وہ اسے حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے گھریلو ملازمین کے ایک شیلٹر میں لے گئے۔ دو دن بعد اسے گنی واپس بھیج دیا گیا کیونکہ اس کی عمر ابھی چھوٹی تھی۔
اس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ مجھ پر چیختے اور مجھے جانور کہتے۔ مجھے اس سے چوٹ پہنچتی، اس کا دکھ ہوتا، لیکن میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔انھوں نے بی بی سی کی ٹیم کو بتایا کہ وہ اب کوناکری کے سکول جاتی ہیں۔ ’میں بہت خوش ہوں۔ اب بھی اس کے متعلق بولتے ہوئے میں بہت خوش ہوں۔ میری زندگی اب بہتر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں غلامی سے واپس آ گئی ہوں۔‘
کویتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے رویے کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ایپس پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔
ابھی تک کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی اور فاتو کو بیچنے کی کوشش کرنے والی خاتون کے خلاف کوئی قانونی ایکشن نہیں لیا گیا۔
اس خاتون نے بھی کبھی بی بی سی سے بات کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
جب بی بی سی کی ٹیم نے ایپس اور ٹیکنالوجی کمپنیوں سے اپنی تحقیق سے متعلق بات کی تو فور سیل نے گھریلو ملازمین کا سیکشن ’خادمات للتنازل #‘ یا میڈز فار ٹرانسفر ہٹا دیا اور فیس بک نے بھی اس نوعیت کے ہیش ٹیگ کو بند کر دیا ہے۔سعودی اجناس کی ’ایپ حراج‘ نے فی الحال اپنا کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
گوگل اور ایپل نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اپلیکیشن سٹورز پر اس طرح کے رویے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور وہ ایپ ڈویلپرز کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ اپنے پلیٹ فارمز پر اس طرح کی غیر قانونی سرگرمی کو روک سکیں۔
BBC urdu